Free AIOU Solved Assignment Code 452 Spring 2024

Free AIOU Solved Assignment Code 452 Spring 2024

Download Aiou solved assignment 2024 free autumn/spring, aiou updates solved assignments. Get free AIOU All Level Assignment from aiousolvedassignment.

Course: Iblaag Eamaa (452)
Spring, 2024
Assignment No 1

ANS 01

میڈیا کو معاشرے میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ابلاغ اگر صدق پر مبنی ہوگا تو معاشرے میں اچھی اقدار کو فروغ اور استحکام ملے گا اور معاشرہ ایک مثبت سمت آگے بڑھتا جائے گا۔ اگر ابلاغ میں کذب ہوگا یا اس پر کذب کا غلبہ ہوگا تو معاشرے میں ہر طرف نفرت، انتشار، بے چینی اور پریشانی کا ماحول پیدا ہوگا۔

ابلاغِ صدق کا عمل پیغمبرانہ روش، سنت اور طریق ہے۔ جیسے معلمیت و معلم کا پیشہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے اسی طرح ابلاغِ کامل اور ابلاغِ صدق بھی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سب سے بڑی ذمہ داری ابلاغِ صدق ہے، جسے وہ اپنے اپنے عہد میں نبھاتے رہے ہیں، ارشاد فرمایا:

فَاِنْ تَوَ لَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ.

’’پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف (اَحکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں.

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن فقط ’’ابلاغ‘‘ کی بات نہیں بلکہ ’’ابلاغِ مبین‘‘ کی بات کرتا ہے۔ ایسا ابلاغ کہ جس کے بعد کسی اور ابلاغ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ کسی حقیقت کو اس طرح واضح کرنا کہ کوئی فرد اس حقیقت کو جھٹلا نہ سکے۔ وہ ابلاغ اپنے اندر ایک واضح حقیقت رکھتا ہو اور انسانی عقول کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ارواح کو بھی منور کرے۔

گویا ’’ابلاغِ مبین‘‘ سے معاشرے کے افراد کے اقوال و اعمال کی اصلاح ہوتی ہے۔

عصرِ حاضر میں معاشرے کی تعمیر اور تخریب میں میڈیا کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ میڈیا اگر لوگوں کو شعور دے تو لوگ باشعور ہوں گے۔۔۔ اگر لوگوں کو معاشرتی خرابیوں سے آگاہ کرے گا تو لوگ ان معاشرتی برائیوں سے اجتناب کریں گے۔۔۔ اگر لوگوں کو تعلیم دے گا تو لوگ تعلیم یافتہ اور مہذب ہوں گے۔ اسی طرح اگر میڈیا منفی کردار ادا کرے گا، قاتلوں اور ظالموں کو تحفظ دے گا تو قتل و غارت گری اور ظلم و ستم کا خاتمہ نہ ہوگا۔

میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق و صداقت کی نشانی بنیں، کسی کا خوف و خطرہ اور کسی کی مزاحمت و ملامت ان کو حق کے اظہار سے نہ روک سکے۔ اس لیے مومنین کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ

وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ.

’’وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوتے‘‘۔

(المائدة، 5: 54)

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ذیل میں میڈیا کی دینی اور قومی ذمہ داریوں کو بیان کیا جارہا ہے:

1۔ میڈیا کا کردار شعور و آگہی فراہم کرنا

میڈیا کا کام راستہ دکھانا ہے۔ صحیح بات کو پہنچانا ہے، انسانی ذہن تک حقیقت کا ابلاغ کرنا ہے۔ یعنی خبر کے پس پردہ کوئی قوت اس خبر کی ’’خبریت‘‘ پر اثر انداز نہ ہوسکے اور اس خبر کو اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرسکے۔

اس حوالے سے سورۃ الدہر سے ہمیں راہنمائی ملتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَجَعَلْنٰـهُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا. اِنَّا هَدَیْنٰـهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا.

’’پس ہم نے اسے (ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہے۔ بے شک ہم نے اسے(حق وباطل میں تمیز کرنے کے لیے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے‘‘۔

(الدهر، 76: 2-3)

ان آیاتِ کریمہ کے ذریعے ہمیں میڈیا کے کردار کے حوالے سے یہ راہنمائی میسر آتی ہے کہ میڈیا کا کام ’’انا هدینه السبیل‘‘ سے مزیّن ہو۔ یعنی سیدھے راستے کی جانب راہنمائی فراہم کرنا، صحیح موقف سے آگاہ کرنا، حقیقت امر سے باخبر رکھنا اور حق و سچ سے آگاہ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔

میڈیا ہر بات اس طرح لوگوں تک پہنچائے کہ وہ ’’سمیعا‘‘ سننے کے قابل ہو، ’’بصیرا‘‘ دیکھے جانے کے لائق ہو۔ قطع نظر اس کے کہ اس خبر کو سن کر یا دیکھ کرکون کیا رائے قائم کرتا ہے؟ کیا وہ خبر کا حمایتی ہوتا ہے یا اس کے مخالف ہوتا ہے؟میڈیا کا یہ مطمع نظر نہ ہو۔ کسی کو کسی بات کے موافق و مخالف بنانے سے میڈیا اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کھودے گا۔

اگر میڈیا کے کسی بھی شخص کا ارادہ کسی کی پگڑی و عزت کو اچھالنا ہوگا، کسی کی کردار کشی کرنا ہوگی اور کسی کے مال و زر سے اپنی زبان کو سیاہ و متلذذ کرنا ہوگا اور اپنے منصب کا ناجائز استعمال کرنا ہوگا تو ایسا شخص زیادہ دیر تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوگا، اس لیے کہ بالآخر فتح سچ اور حق کی ہی ہوتی ہے۔ جب کردار کشی کا گرد اور غبار چھٹے گا تو اس میڈیا پرسن کا چہرہ بھی اپنی حقیقت کے ساتھ بے نقاب ہوجائے گا اور اس عمل سے سوائے ذلت اور حقارت کے اسے کچھ میسر نہ آئے گا۔

2۔ فاسق کی خبر سے اعراض

وہ شخص جو فسق و فجور کی طرف راغب ہو اور جس کا مزاج صلح پسندی کی بجائے شرارت پسندی کا ہو تو ایسے شخص کی خبر پر دھیان نہیں دینا چاہئے، جب تک کہ اس کی خبر کی تائید و تصدیق مصدقہ ذرائع سے نہ ہوجائے۔ اس لیے کہ ایسے شخص کی خبر اپنے اندر شرمساری و خجالت کے ہزاروں امکانات لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اس بنا پر فاسق کی خبر ہمیشہ غیر معتبر اور غیر مستند رہی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ.

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ‘‘۔

(الحجرات، 49: 6)

یہ آیت کریمہ میڈیا کے کردار کے حوالے سے بنیادی راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اگر اس آیتِ کریمہ کو ہم اپنے عصری ابلاغی کرداروں پر منطبق کریں تو راہنمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ میسر آتا ہے۔ ہمارے سامنے ظاہر ہونے والا مخبر اگر اپنے اندر کردارِ کذب کا غلبہ رکھتا ہے تو ایسا شخص ’’فاسق‘‘ کہلائے گا لہٰذا اب وہ جو نئی خبر دے رہا ہے، اس خبر کو کریدنا اور تفتیش حال کرنا، اس کا کھوج لگانا اور اس کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے۔ اگر اس کی خبر کو اس عمل میں نہ ڈھالا گیا تو پھر لاعلمی اور بے خبری کی بنا پر نقصان کا خطرہ اور ندامت کا اندیشہ ضرور ہے۔ اس لیے میڈیا کی وہی خبر معتبر اور مستند ہے جو چھان بین اور تفتیش و تحقیق کے عمل سے گزر کر آئی ہے۔ جہاں یہ عمل نہیں ہوتا وہاں نقصان و خسارہ کا اندیشہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔

3۔ میڈیا اور اصلاحِ معاشرہ

میڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری معاشرے کی ترقی اور اصلاح ہے۔ معاشرتی اور انسانی اقدار کا تحفظ اور ان کا شعور دینا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ مسلم معاشرے میں جو ذمہ داری ایک ایک فرد کی ہے، وہ اجتماعی صورت میں میڈیا کی ہے۔ اس ذمہ داری کا ذکر قرآن مجید نے یوں کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا.

’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو‘‘۔

(الحجرات، 49: 9)

اسی طرح ایک مسلم کے کردارِ اصلاح کو اگلی آیت کریمہ میں یوں واضح کیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَ یْکُمْ وَاتَّقُوا ﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.

’’بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔

(الحجرات، 49: 10)

جب ایک مسلمان مصلح بنتا ہے تو دوسروں کی ہمدردیاں اپنے ساتھ پاتا ہے، ان کی نظروں میں انسانیت کا خیر خواہ بنتا ہے اور ان کے دلوں میں عزت و عظمت کا باعث بنتا ہے جبکہ وہی مسلمان جب اس کردار کو ترک کردیتا ہے اور معاشرے کے لیے ’’مفسد‘‘ بن جاتا ہے تو لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ اسی کردار کو اجتماعی صورت میں میڈیا میں دیکھنا چاہتا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری لوگوں کے ذہنوں کو سنوارنا ہے۔ لوگوں تک غلط اور بے بنیاد خبریں پہنچا کر ان کے اذہان کو بگاڑنا میڈیا کی ذمہ داریوں کے برعکس ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ٹھوس حقائق کا اظہار کرنا ہے جن کے ذریعے لوگوں کی سوچ و فکر، قول و عمل اور عادت و رویے سنور جائیں۔

4۔ میڈیا ظالم کا نہیں مظلوم کا خیر خواہ ہو

ظالم اپنی قوت کے نشے میں مخمور ہوتا ہے، اسے اپنی طاقت پر گھمنڈ ہوتا ہے، وہ اپنے اثر و رسوخ پر ناز کرتا ہے، خود کو قانون سے بالا دست محسوس کرتا ہے، قانون کو اپنی لونڈی و کنیز کی صورت میں دیکھتا ہے اور اپنی مرضی کو قانون بناتا ہے۔ یوں ناروا قوت و طاقت کا اظہار کرتے ہوئے کمزور شخص پر ظلم کے پہاڑ گراتا ہے۔

میڈیا کا کردار ظالم کے ظلم کو مٹانا ہے، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا ہے، مظلوم کا ساتھ دینا ہے اور ظالم کو بے دست و پا کرنا ہے۔ حتی کہ ظالم خود اپنے ظلم سے باز آجائے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

انصر اخاک ظالما او مظلوما. فقال رجل: یارسول الله! انصره اذا کان مظلوما، ارایت ان کان ظالما کیف انصره؟ قال تمنعه من الظلم فان ذلک نصره.

’’اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہے، خواہ وہ مظلوم ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر وہ مظلوم ہو تب میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جب وہ ظالم ہو تو مَیں اس کی مدد کیسے کروں؟ فرمایا: اسے ظلم سے باز رکھو، کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے‘‘۔

(صحیح بخاری، کتاب الاکراه، باب یمین الرجل لصاحبه، ج: 6، ص: 255، رقم: 6552)

اگر آج معاشرے کی سب سے بڑی طاقتور آواز اور معاشرے کی سب سے بڑی قوت میڈیا مظلوم کا ساتھی نہ بنے اور مظلوم کے ساتھ کھڑا نہ ہو، بلکہ ظالم کا ساتھ دے اور اس کے ظلم سے مرعوب ہوجائے، اس کے حربوں اور حملوں سے ڈر جائے، اس کے خلاف آواز بلند نہ کرے اور اس کے خلاف کسی بھی صدائے احتجاج کو منظرِ عام پر نہ آنے دے تو ایسی صورت میں میڈیا اپنے بنیادی فرض کو ترک کرکے ظالم کا ساتھی بن جائے گا، جس کے باعث لوگوں کا اس سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

میڈیا کا کام حق کو سربلند کرنا اور باطل کو سرنگوں کرنا ہے مگر اس عمل میں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی غلط فیصلہ نہ کیا جاسکے۔

5۔ میڈیا کی ذمہ داری، کردار کشی اور پگڑی اچھالنا نہیں

میڈیا پر لوگ اعتبار کرتے ہیں، اس کی دی جانے والی معلومات پر بھروسہ کرتے ہیں، اسے مصدقہ اور ثقہ خیال کرتے ہیں۔ لہٰذا میڈیا کی خبروں میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں ہونا چاہئے۔ میڈیا کا کام یہ ہرگز نہیں کہ وہ لوگوں کی تضحیک کرے، ان کا تمسخر اور استہزاء اڑائے، ان کی کردار کشی کرے اور ان کی پگڑیاں اچھالے اور ان پر طعنہ زنی کرے۔

غرضیکہ ہر منفی کام، میڈیا کا اپنی ذمہ داریوں سے تجاوز ہے اور ہر مثبت کام میڈیا کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ منفی اقدار کا قلع قمع کرنا میڈیا کا فرض اور مثبت تصورات کو فروغ دینا میڈیا کی شناخت ہے۔ میڈیا کے اس کردار کے حوالے سے راہنمائی ہمیں قرآن مجید سے یوں میسر آئی ہے:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِط بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ.

’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخُر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔

(الحجرات، 49: 11)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسلامی معاشرے کا کوئی بھی فرد انفرادی اور اجتماعی صورت میں کسی بھی شخص کو بلا وجہ تضحیک و تمسخر کا نشانہ نہ بنائے، خواہ مخواہ کسی کا استہزاء نہ کیا جائے، کسی کے کردار کو غیر مصدّقہ اطلاعات کی بنا پر داغدار نہ کیا جائے، بے بنیاد الزام تراشی نہ کی جائے، طعنہ زنی سے اجتناب کیا جائے، کسی کو بے عزت کرنے کا ارتکاب نہ کیا جائے، اپنی زبان کو شائستہ اور مہذب رکھا جائے، زبان کو گالی گلوچ سے بچایا جائے، برے القابات اور برے ناموں سے احتراز کیا جائے، حق کا اظہار کیا جائے اور گناہ اور ظلم کو ہر صورت سے روکا جائے۔ یہی کردار مسلم معاشرہ اور معاشرتی اداروں کا ہے۔

6۔ میڈیا کسی سازش کا شکار نہ ہو

سازش ہمیشہ بدگمانی اور جھوٹ سے وجود پاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں ان دونوں چیزوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا.

’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو‘‘۔

(الحجرات، 49: 12)

سازش کی بنیاد ظن اور تجسس ہے۔ بدگمانی اور عیب جوئی کا عمل انسان میں مسلسل بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان، حدود و قیود کو بھی بھول جاتا ہے۔ رازوں کی جستجو اور دوسروں کے عیبوں سے آگہی کی تڑپ نہ صرف انسان کو رسوا کردیتی ہے بلکہ دشمنی و عداوت کی بنیادوں کو مستحکم کرتی ہے اور نفرت و کدورت کے الاؤ کو بھڑکاتی ہے۔ اس عمل میں جھوٹ کی آمیزش ہوجائے تو سازش اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ جھوٹ خواہ کسی فرد کی زندگی میں آئے یا کسی ادارے و شعبے کی شناخت میں آئے، اس کا انجام تباہی و بربادی ہے۔ جھوٹ نہ اللہ کو پسند ہے اور نہ اللہ کی مخلوق کو۔ اسی لیے جھوٹے شخص پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ اس ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ ﷲِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ.

’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔

(آل عمران، 3: 61)

میڈیا اگر جھوٹ جیسی اخلاقی برائی کو اپنی صفوں سے دور کرلے تو اسے معاشرے میں وہ وقعت اور عظمت میسر آسکتی ہے جو اس کی پہچان ہے اور جو اس کا حق ہے۔

AIOU Solved Assignment Code 452 Spring 2024

ANS 02

اگر میڈیا کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو اس کا رشتہ تخلیق انسانی سے ہی جڑا معلوم ہوتا ہے ؛اس لیے کہ دنیا میں جب انسانوں کی تخلیق ہوئی تو انہیں ایک دوسرے تک پیغام پہنچانے کی ضرورت پڑتی ہوگی ؛مگر ابتدا میں اشاروں کے ذریعہ یہ کام عمل میں آنے لگا ،پہلے یہ اشارے ذاتی تھے پھر عوامی بن کر سامنے آئے ،پھر ایک لاکھ سال قبل مسیح غیر ترقی یافتہ زبان (Embryonic)کی شروعات ہوئی جس نے میڈیا اور ابلاغ کے عمل کو کافی تقویت پہنچائی اور اپنی بات بہت سے لوگوں تک پہنچانا آسا ن ہو گیا،ان آوازوں میں بھی صوتی اشارے ہونے لگے ابتداء میں ذاتی اور پھر عوامی ؛مگر یہ زبان اور آواز موجود لوگوں تک ہی پہنچائی جا سکتی تھی اور اسے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی نہیں تھا ،اس ضرورت کے پیش نظر تحریر کی ایجاد ہوئی ،تیس ہزار سال قبل مسیح کے بہت سے ایسے پتھر اور دیگر ساز و سامان ملتے ہیں جن پر ہمیں ایسی لکیریں ملتی ہیں جو تحریر کی ایجاد کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں نے بہت پہلے ہی تحریر ایجاد کر دیا تھا ،دس ہزار سال قبل مسیح بیل وغیرہ کی تصویر بنا کر اور مختلف لائنیں کھینچ کر تصویری خط کی ایجاد ہوئی ،پھر جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا یہ تصویریں مختصر ہوتی گئیں اور لکیروں میں بدل گئیں اور پھر علامتی خط کی شروعات ہوئی ،پھر انہیں علامتوں نے حروف تہجی کی شکل اختیار کی اور اس طرح تمام حروف کے آواز متعین ہوگئے اور اس طرح ہر عہد میں ابلاغ کا عمل جاری رہا اور لوگ ایک دوسرے تک اپنے خیالات ،افکار ،آرااور اطلاعات پہنچاتے رہے اور ۷۵۱ ق م میں ایک قلمی خبرنامہ جاری ہوا محققین یہیں سے پرنٹ میڈیا کا آغاز بتلاتے ہیں؛مگر اس دور میں کاغذ موجود نہیں تھا لوگ چمڑے ،پتھر ،ہڈی اور درخت کے چھال وغیرہ پر لکھتے تھے ،اس سمت میں چین نے ترقی کی اور ریشم کے کپڑوں پر کتب،رسائل اورخبرنامے لکھے جانے لگے ؛مگر ریشم کمیاب بھی تھا اور مہنگا بھی اس لیے بہت زیادہ استعمال نہیں کر سکتے تھے ،اس ضرورت کو چین کے تساہل لن نامی شخص نے پرانے سوتی کپڑوں،لکڑی کی چھلن اور دیگر بوسیدہ چیزوں کو شامل کرکے ۱۰۵ء میں کاغذ ایجاد کیا ،جس نے میڈیا کے ارتقاء میں اہم کردار اداکیا اس کے بعد ایران میں عربوں کے قابض ہونے کے بعد آٹھویں صدی عیسوی میں سمر قند میں کاغذ کا پہلا کارخانہ قائم ہوا اس کے بعد مختلف ذرائع کے ذریعہ ہر دور میں ابلاغ کا عمل جاری رہا اور ۱۵۶۶ء میں میں ایک شخص قلمی نوٹ لے کر کھڑے ہوکر خبریں سناتا تھا اور ہر خبر سننے والے سے وہاں کا رائج سکہ ”گزیٹا” وصول کرا تھا اسی گزیٹا سے گزٹ نام پڑا اور آج اخبارات اور بہت سے سرکاری کاغذات پر گزٹ کا اطلاق ہوتا ہے ،سولہویں صدی کے سلسلہ میں ایک رپورٹ ملتی ہے کہ انگلستان میں اگر کوئی ،واقعہ ،حادثہ یا ایسا معاملہ پیش آتا جس کا تعلق عوام سے ہو تو حکومت news sheetکے نام سے ایک خبرنامہ جاری کرکے عوام کو اطلاع دیتی تھی ،اس کے علاوہ اس عہد میں ڈرامے وغیرہ بھی واقعات کو عملی شکل میں پیش کرکے ابلاغ کا فریضہ انجام دے رہے تھے ،سنیما اور فلم کے ایجاد میں ڈرامہ کو اہم کڑی کہا جا سکتا ہے ۔ .
پرنٹ میڈیا: اگر ہم تحریری میڈیا کی بات کریں تو طباعت کے آغاز سے قبل ہی ہمیں اس کے نمونے ملتے ہیں ،عتیق صدیقی نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ ”حضرت مسیح سے کوئی ۷۵۱ برس پہلے رومن راج میں روزانہ ایک قلمی خبرنامہ جاری کیا جاتا تھا ،جس میں سرکاری اطلاعیں ،نیز میدان جنگ کی خبریں ہوتی تھیں اس قلمی خبرنامہ کو ”اکٹا ڈیورینا” کہتے تھے ،یہ لاطینی زبان کے الفاظ اور سے مرکب ہے ،اول الذکر کے معنی ہیں کارروائی اور مؤ خر کے معنی ہیں روزانہ ،(ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں )اس کے علاوہ سولہویں صدی میں وینس شہر اور انگلستان میں بھی خبر رسانی کے قلمی ذرائع کی اطلاع ملتی ہے ؛مگر تحقیق کے مطابق دنیا کا پہلا مطبوعہ اخبار 1609ء میں جرمنی سے جاری ہوا تھا ،جس کا نام تھا ،اس کے بعد 1611ء میں برطانیہ’ سے نیوز فرام اسپین”جاری ہوا تھا چوں کہ یہ پورے طور پر اخباری شکل میں نہیں تھا ؛اس لیے بعض لوگ اسے باضابطہ اخبار نہیں مانتے ،پہلا باضابطہ انگریزی اخبار 1620ء میں برطانیہ سے جاری کیا گیا جس کا نام ”ویکلی نیوز ” تھا ،پھر 1631ء میں فرانس سے ”گزٹ ڈی فرانس ”امریکہ کے بوسٹن شہر سے 1690ء میں ”پبلک آکرنریسیز”اور 1702ء میں لندن کا پہلا روزنامہ اخبار ”لندن ڈیلی کورانٹ ” شائع ہوا ،اس طرح پوری دنیامیں یہ سلسلہ جاری ہو گیا اور بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے ہر ملک میں سینکڑوں اخبارات نظر آنے لگے ۔ .
ہندوستان میں میڈیا کا آغاز اور پرنٹ میڈیا: ہندوستان میں بھی قدیم زما نہ ہی سے خبر رسانی اور ابلاغ کا عمل شروع ہو چکا تھا،منو مہاراج پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہندوستان میں خبر رسانی کا دستور مقرر کیا تھا ،اس کے علاوہ بادشاہ اشوک کے عہد میں باضابطہ خبر رسانی کا محکمہ بن گیا تھا اور اس میں وقائع نگار ،خفیہ نویس،سوانح نگار اور ہر کارے کو ملازمت دی گئی تھی تاکہ mediaکا نظام مضبوط ہو سکے ،اس کے بعدشیر شاہ سوری کاجب عہد آیا تو انہوں نے ڈاک اور خبر رسانی کا بہت ہی منظم اور مستحکم نظام مقرر کر دیا ،عہد مغلیہ میں اخبار نویسی کا سلسلہ پروان چڑھا اور 1660ء میں ایک اور اخبار سامنے آیا ،اکبر کے عہد میں اس کا نام ”دربار معلی” تھا شاہ جہاں نے اس کا نام ”اخبار دارالخلافہ شاہ جہاں آباد” کر دیا،اس کے علاوہ اورنگ زیب نے بھی اخبار نکالنے میں اہم کردار ادا کیا اور بہادر شاہ ظفر کے عہد میں ”سراج الاخبار” نام سے ایک اخبار نکلتا تھا ،چوں کہ اس سے پہلے ہندوستان میں طباعت کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ،اس لیے تمام اخبارات قلمی ہوتے تھے مطبوعہ اخبارات کا آغاز اٹھارہویں صدی کے آخری دہائیوں میں ہوا ،1768ء میں مسٹر بولٹس نے کلکتہ کو نسل ہاؤس کے دروازہ پر ایک اشتہار چسپاں کرکے اخبار شروع کرنے کی کوشش کی؛مگر انہیں کامیابی نہیں ملی ،اس سلسلہ میں جو شخص سب سے پہلے کامیاب ہوا وہ جیمس آگسٹن ہکی ہے اس نے ۲۹ جنوری ۱۷۸۰ء کو ہندوستان کا پہلا باضابطہ انگریزی اخبار ”ہکز بنگال گزٹ” یا” کلکتہ جنرل ایڈور ٹائزر”کے نام سے جاری کیا ،یہ ہفت روزہ تھا ،اس کے نو مہینے کے بعد ۱۷۸۰ء نومبر میں ”انڈیا گزٹ” کے نام سے دوسرا اخبار جاری ہوا ،اس نے بہت ترقی کی پہلے ہفت روزہ ،سہ روزہ اور پھر یک روزہ کی شکل میں اس کی اشاعت شروع ہوئی ،اس کے بعد مسٹر فرانسس کے زیر ادارت ”کلکتہ گزٹ اورینٹل ایڈورٹائزر” کے نام سے ۴ مارچ ۱۷۸۴ء کو شروع ہوا پھر ۱۷۹۱ء میں ”بمبئی آبزرور” کی شروعات ہوئی اس کے بعد مسٹر ولیم نے ۱۷۹۵ء میں ہفت روزہ ”مدراس گزٹ جاری کیا ،اس خبار کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں انگریزی ،گجراتی،مراٹھی ،کنڑ اور اردو زبانوں میں اشتہارات چھپتے تھے اس طرح ہندوستان میں اخبارات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور کتابوں وغیرہ کی طباعت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی مقامی زبانوں میں بھی اخبارات شائع ہونے لگے ۔ .
اردو پرنٹ میڈیا: ہندوستان کے ساتھ انگریزوں کا رویہ چاہے جیسا بھی رہا ہو مگر اردو زبان اور اس کے رسم الخط کے سلسلہ میں انہیں مخلص ہی کہنا پڑتا ہے ،جان گلکرائسٹ ایسا شخص ہے جس نے ۱۸۰۱ء میں اردو اور فارسی رسم الخط کا مطبع شروع کیااور فارسی و اردو زبان میں اشاعتوں کا سلسلہ شروع ہوا ،راجہ رام موہن رائے نے فارسی زبان میں ”مراۃ الاخبار” کے نام سے اخبار نکالا پھر جام جہاں نما پھر منشی سدا سکھ لال کی ادارت میں ۱۸۲۲ء میں ارفو اخبار کی بھی شروعات کی ،چوں کہ اس وقت فارسی کا بہت غلبہ تھا ،اس لیے اس اخبار کی زبان بھی فارسی آمیز تھی ،پھر دہلی اردو اخبار کے نام سے ۱۸۳۷ء میں محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے اخبار شروع کیا ، ،پھر سر سید احمد خاں کے بھائی سید محمد خاں نے ۱۸۳۸ء میں سید الاخبار نام سے اخبار شروع کیا ،اسی زمانہ میں صادق الاخبار بھی جاری ہوا پھر ۱۸۵۰ء میں لاہور سے منشی ہر سکھ رائے نے ”کوہ نور” جاری کیا ، اس کے بعد ایک پادری نے ۱۸۵۷ ء میں مرزا پور سے ”خیر خواہ ہند ” جاری کیا ،پھر دہلی کالج کے پرنسپل اسپرنگر نے ۱۸۴۵ء میں ہفت روزہ اخبار قران السعدین جاری کیا ،اس کے بعد ماسٹر رام چند نے فوائد الناظرین کے نام سے اخبار جاری کیا ،پھر سر سید نے ہفت روزہ اخبار سائنٹفک سوسائٹی جاری کیا ،جس کی ابتدا ۱۸۶۶ء سے ہوئی ،پھر تہذیب الاخلاق ،اودھ پنچ (۱۸۷۷)،پیسہ اخبار(۱۸۶۳)،اردوئے معلی (۱۹۰۳)زمیندار(۱۹۰۳)،الہلال (۱۹۱۲)،مدینہ بجنور (۱۹۱۲) اور ہمدرد (۱۹۱۳ )نے ہندوستان کی اردو صحافت میں اہم کردار ادا کیا ، اس کے بعد جو اردو صحافت کی ترقی کا سلسلہ