Free AIOU Solved Assignment Code 411 Spring 2024

Free AIOU Solved Assignment Code 411 Spring 2024

Download Aiou solved assignment 2024 free autumn/spring, aiou updates solved assignments. Get free AIOU All Level Assignment from aiousolvedassignment.

Course: Imraniyat (411)
Semester: Spring, 2024
ASSIGNMENT No. 1

ANS 01

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج کا دور سائنس کا دور ہے ۔ نت نئی ایجادات اور اختراعات وانکشافات نے انسانی زندگی کو سہل اور رنگین بنادیا ہے۔ ماضی قریب میں جو کام ناممکن اور مشکل سمجھے جاتے تھے آج سائنس کی بدولت بازیچہ اطفال معلوم ہوتے ہیں۔ سائنس نے اقوامِ عالم کے درمیان دوریوں کی خلیج کو پاٹ کر رکھ دیا ہے آج دنیا گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آج “ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں” کے مقولے کو عملی شکل مل چکی ہے جدید راکٹ سائنس اور سپیس ٹیکنالوجی کی بدولت آج بندہِ خاکی خلا میں اپنی حاکمیت قائم کرچکا ہے۔ سائنسی ترقی اور ترویج کے اس دور میں لوگ نت نئی کارناموں کو انجام دینے کی فکر میں اپنی اصل اور بنیاد سے ہٹتے چلے جا رہے ہیں روشنیوں کی چمک اور جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ انہیں صراط مستقیم سے دور لے جارہی ہے۔کلاس اول سے لے کر میٹرک تک کا نصاب ادارے یا پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا تجویز کردہ ہوتا ہے اس میں طلباء کو تبدیلی کا اختیار حاصل نہیں ہوتا- انہیں اسی نصاب کے مطابق اپنی تعلیم کو جاری رکھنا ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس میٹرک کے بعد طلباء کو اپنے شوق اور رغبت کے پیشِ نظر اپنی پسند اور علم و عقلی استعداد کے مطابق مضامین کے چناؤ کا اختیار ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ طلباء کے لئے بڑا کھٹن ہوتا ہے ۔ اساتذہ،والدین اور دوستوں کے ترغیب دلانے پر طالبعلم مضامین اختیار کر لیتا ہے جو کہ بعد میں اس کے عقل و شعور سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں دیکھا دیکھی کا رجحان عام ہے اسی وجہ سے موجودہ دور میں طلباء میں عمرانی مضامین کے مقابلے میں سائنسی مضامین اختیار کرنے کا رجحان بتدریج بڑھتا چلا جارہا ہے۔
طلباء سائنسی مضامین کے مقابلے میں عمرانی مضامین کو کمتر اور فرسودہ خیال کرتے ہیں اور دور حاضر میں ان سے کنارہ کش نظر آتے ہیں۔
کیا عمرانی علوم کی اہمیت سائنسی علوم کے مقابلے میں کم ہے؟

یا
آج کے جدید دور میں نونہالان وطن کی تعلیم و تربیت ان کے بغیر ممکن ہے؟

عمرانی علوم ہمارے طلباء میں انسانیت سے محبت٬ ان کی سوچ و فکر کو مثبت انداز میں پروان چڑھانے،ان کے اندر حب الوطنی اور مقصد حیات سے روشنائی پیدا کروانے میں کیسے کردار ادا کرتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں سائنسی علوم کا حصول اور ان میں تحقیق وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے ملیکن ہمیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ عمرانی علوم کسی بھی قوم کی اساس ہوتا ہے جو صدیوں کے تجربات اور مشاہدات کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔عمرانی علوم نسل نو میں خوداری،خوداعتمادی، آبا واجداد سے محبت،انسانیت سے پیار،ظلم سے نفرت اور مقصد حیات سے روشناس کرواتے ہیںعمرانی علوم ہی علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے خواب

خودی میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی”

کو عملی جامہ پہنانے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔

عمرانی علوم ہی انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناتے ہیں اور اور دوسرں سے محبت اور اقوام عالم سے بہتر اور برابری کے تعلقات کو فروغ دینے میں مدد دیتے ہیں ۔عمرانی علوم تہذیبی اور ثقافتی ورثے تاریخی انسانی کے محافظ ہوتے ہیں اور دنیا کی دوسری اقوام اور ممالک کے لوگوں کے

تہذیب و تمدن،آداب معاشرت اور اقدار و روایات سے آگاہ کرتے ہیںعمرانی علوم لوگوں کے کردار اور اخلاق کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس کے برعکس سائنسی مضامین اور سائنسی ایجادات لوگوں میں مقابلے کے رجحان کو فروغ دیتی ہیں۔
عمراﻧﯽﻋﻠﻮﻡﻣﯿﮟﻧﻔﺴﯿﺎﺕ،ﺳﻮﺷﯿﺎﻟﻮﺟﯽ،ﻣﻌﺎﺷﯿﺎﺕ،سیاسیات،سوشل سائنس،فنون لطیفہ، ﻟﭩﺮﯾﭽﺮ،ﻋﻠﻢﺍﻟﺘﻌﻠﯿﻢ،ﻗﺎﻧﻮﻥﺍﻭﺭﺻﺤﺎﻓﺖﺷﺎﻣﻞﮨﯿﮟ۔ﺍِﻥﻣﻀﺎﻣﯿﻦﻣﯿﮟﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥﻣﯿﮟﺍﻭّﻝﺗﻮﮐﺴﯽﮐﯽﺩﻟﭽﺴﭙﯽﻧﮩﯿﮟﮨﮯ-اورانہیںفرسودہاورمتروکخیالکیاجاتاہے۔ﺍﮔﺮﮐﺴﯽﮐﯽﺩﻟﭽﺴﭙﯽﮨﮯ،ﺗﻮﻭﮦﻣﺤﺾﺍﺱﺣﺪﺗﮏﮐﮧﺟﻮﻃﻠﺒﮧﭘﮍﮬﺎﺋﯽﻣﯿﮟﮐﻤﺰﻭﺭﮨﻮﮞ،ﺍُﻭﺭﺳﺎﺋﻨﺴﯽﻣﻀﺎﻣﯿﻦﭘﮍﮬﻨﮯﮐﮯﻗﺎﺑﻞﻧﮧﮨﻮ،ﻭﮦﻋﻤﺮﺍﻧﯽﻋﻠﻮﻡﻣﯿﮟﻗﺴﻤﺖﺁﺯﻣﺎﺋﯽﮐﺮﺗﮯﮨﯿﮟ۔عمرانیمضامیناختیارکرنےوالوںکوحقارتکینظر سے دیکھا جاتا ہے اور انکو کم علم گردانا جاتا ہے۔
ﮨﻤﺎﺭﮮﮨﺎﮞﺑﺪﻗﺴﻤﺘﯽﺳﮯﺟﻦﻟﻮﮔﻮﮞﻧﮯﻋﻤﺮﺍﻧﯿﺎﺕﮐﮯﻣﻀﺎﻣﯿﻦﻣﯿﮟﮈﮔﺮﯾﺎﮞﻟﮯﺭﮐﮭﯽﮨﯿﮟ،ﺍُﻥﮐﻮﺍُﻥﮐﮯﺭُﺗﺒﮯﮐﮯﻣﻄﺎﺑﻖ’’ﻋﺰﺕ‘‘ﻧﮩﯿﮟﺩِﯼﺟﺎﺗﯽ۔ﺟﺲﻭﺟﮧﺳﮯﺳﺎﺋﻨﺲﮐﮯﻣﻀﺎﻣﯿﻦﭘﮍﮬﻨﺎ’’ﻓﯿﺸﻦ‘‘ﺑﻦﮔﯿﺎﮨﮯ۔ﻣﺎﺭﮐﯿﭧﮐﮯﺭُﺟﺤﺎﻥﮐﻮﺩﯾﮑﮭﺎﺟﺎﺋﮯﺗﻮﮨﻢﻟﻮﮒﻭﮦﮐﺎﺭﻧﺎﻣﮯﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡﺩﮮﺭﮨﮯﮨﯿﮟ۔ﺟﻦﮐﯽﺿﺮﻭﺭﺕﺯﯾﺎﺩﮦﻧﮩﯿﮟﮨﮯ۔ﺍﯾﮏﺩِﮨﺎﺋﯽﻗﺒﻞﺟﺐ’’ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮﺳﺎﺋﻨﺲ‘‘ﮐﮯﻓﺎﺿﻞﺍﻓﺮﺍﺩﮐﯽﺿﺮﻭﺭﺕﺗﮭﯽ۔ﮨﻤﺎﺭﺍﭘﻮﺭﮮﮐﺎﭘﻮﺭﺍﺳﻤﺎﺝﺍﺱﺭﺍﺳﺘﮯﭘﺮﭼﻠﻨﮯﻟﮕﺎ۔ﺩﯾﮑﮭﺘﮯﮨﯽﺩﯾﮑﮭﺘﮯﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮﺳﺎﺋﻨﺲﮐﮯﻓﺎﺿﻞﻃﻠﺒﮧﮐﮯﺍﯾﮏﺧﻮﻑﻧﺎﮎ’’ﮨﺠﻮﻡ ‘‘ ﻧﮯﻣﺎﺭﮐﯿﭧﮐﻮﺑﮭﺮﺩﯾﺎ۔ﺍِﺱﮐﺎﻧﺘﯿﺠﮧﯾﮧﻧﮑﻼﮐﮧﻣﺎﺭﮐﯿﭧﻣﯿﮟﺍِﺗﻨﮯﻃﻠﺒﮧﮐﻮﻧﻮﮐﺮﯾﺎںﻣﮩﯿﺎﮐﺮﻧﮯﮐﯽﮔﻨﺠﺎﺋﺶﮨﯽﻧﮩﯿﮟﺗﮭﯽ۔ﺍُﻭﺭﭘﮭﺮﺭﻭﺍﯾﺘﯽﻣﺎﯾﻮﺳﯽﮐﮯﺳﻮﺍ،ﺍِﻥﮐﮯﮨﺎﺗﮫﻣﯿﮟﮐﭽﮫﻧﮧﺁﯾﺎ ۔
ﮨﻢﻟﻮﮒﺧﻮﺏﺳﮯﺧﻮﺏﺗﺮﭼﯿﺰﮐﯽﺗﻼﺵﻣﯿﮟﺩﻥﺭﺍﺕﺍﯾﮏﮐﺮﺩﯾﺘﮯﮨﯿﮟ۔ﺍِﺱﻭﻗﺖﮐﯿﻤﺴﭩﺮﯼ،ﻓﺰﮐﺲﺍُﻭﺭﺑﯿﺎﻟﻮﺟﯽﮔﻮﯾﺎﮨﻤﺎﺭﯼﺭِﯾﺎﺳﺖﺍُﻭﺭﻋﻮﺍﻡﮐﯽﺭﮔﻮﮞﻣﯿﮟﺳﻤﺎﭼﮑﯽﮨﮯ۔ﻧﻮﮐﺮﯾﻮﮞﮐﺎﺑﮭﯽﺍﻧﮩﯽﻣﻀﺎﻣﯿﻦﺳﮯﺗﻌﻠﻖﺟﻮﮌﺍﺟﺎﺭﮨﺎ۔ﺟﻮﻟﻮﮒﺍِﻥﻣﻀﺎﻣﯿﻦﻣﯿﮟﻓﺎﺭﻍﺍﻟﺘﺤﺼﯿﻞﮨﻮﭼﮑﮯﮨﯿﮟ،ﺍﻓﺴﻮﺱﮐﺎﻣﻘﺎﻡﮨﮯﮐﮧﻧﻮﮐﺮﯾﺎﮞﺍِﻥﮐﻮﺑﮭﯽﻧﮩﯿﮟﻣﻞﺭﮨﯽﮨﯿﮟ۔حکمرانطبقہیہچاہتاہےکہلوگوﻣﯿﮟﺳﯿﺎﺳﯽﺷﻌﻮﺭﭘﯿﺪﺍﻧﮧﮨﻮ۔ﻟﯿﮑﻦ’ﺍﻃﻼﻗﯽﺳﺎﺋﻨﺲ‘ﮐﮯﻣﻀﺎﻣﯿﻦﻣﯿﮟﻣﮩﻨﮕﯽﮈﮔﺮﯾﺎﮞﻟﯿﻨﮯﻭﺍﻟﮯﻃﻠﺒﮧﺑﮭﯽﺑﺎﺭﺑﺎﺭ’’ﺍﭘﻼﺋﯽ‘‘ﮐﺮﮐﮯﺗﮭﮏﭼﮑﮯﮨﯿﮟ۔ﺍَﺏﻣﯿﮉﯾﮑﻞﺍﻭﺭﺩﯾﮕﺮﺳﺎﺋﻨﺴﯽﻣﻀﺎﻣﯿﻦﻣﯿﮟﻣﮩﻨﮕﯽﺗﻌﻠﯿﻢﺣﺎﺻﻞﮐﺮﻧﮯﻭﺍﻟﮯﻃﻠﺒﮧﮐﺎﻣﺴﺘﻘﺒﻞﺑﮭﯽﺳﻮﺍﻟﯿﮧﻧِﺸﺎﻥﮨﮯ‘‘! ۔ﺁﺝﮐﻞﺍﻃﻼﻗﯽﺳﺎﺋﻨﺲﻣﯿﮟﮈﮔﺮﯾﺎﮞﻟﯿﻨﮯﻭﺍﻟﮯﺑﮭﯽﺭُﻝﺭﮨﮯﮨﯿﮟ۔ﮨﻤﺎﺭﯼﺭﯾﺎﺳﺖﮐﯿﻮﮞﺳﺐﮐﻮﺍﯾﮏﮨﯽﻃﺮﻑﺟﺎﻧﮯﮐﺎﺭُﺟﺤﺎﻥﭘﯿﺪﺍﮐﺮﺭﮨﯽﮨﮯ؟۔ﺍُﻭﺭﺟﺐ’’ﮨﺠﻮﻡ‘‘ﻣﺨﺼﻮﺹﻃﺮﻑﭼﻼﮔﯿﺎﮨﮯﺗﻮﺳﺮﻣﺎﯾﮧﺩﺍﺭﻭﮞﻧﮯﭘﮍﮬﮯﻟﮑﮭﮯﻟﻮﮔﻮﮞﭘﺮﺗﻮﺟﮧﺩﯾﻨﺎﺑﻨﺪﮐﺮﺩﯼﮨﮯ –
یہ ﺑﺎﺕﺗﻮﺣﻘﯿﻘﺖﮨﮯﮐﮧﺁﺭﭨﺲﮐﮯﻣﻀﺎﻣﯿﻦﻣﯿﮟ’’ﺳﯿﺎﺳﯿﺎﺕ‘‘ﮐﺎﻣﻀﻤﻮﻥﺑﮭﯽﮨﻮﺗﺎﮨﮯ۔ﺍُﻭﺭﭘﮭﺮ’’ﺳﯿﺎﺳﺖ‘‘ﭘﺮﺗﻮﮨﻤﺎﺭﮮﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞﮐﺎﻗﺒﻀﮧﮨﮯاسلئےوہانعلومکےفروغمیںرکاوٹپیداکرنےکیکوششکرتےہیں۔کیونکہﻋﻤﺮﺍﻧﯽﻋﻠﻮﻡﮐﯽﺗﻌﻠﯿﻢﺣﺎﺻﻞﮐﺮﻧﮯﺳﮯانسانمیںظلمواستبدادکےنظامکےخلافاورپستیوںمیںگرتیہوئیانسانیتکوسہارا دینے کے لیے ﺑﻮﺳﯿﺪﮦﺣﺎﻻﺕﺳﮯﺑﻐﺎﻭﺕﮐﺎﺟﺬﺑﮧﭘﯿﺪﺍﮨﻮﺗﺎﮨﮯجوکہپاکستانمیںاقتدارکےمالکانکوگوارہنہیںہے
معاشرہ اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے ، اس کڑے وقت میں سماجی و عمرانی علوم کے سنہری اصولوں کی معاشرے میں تبلیغ وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہےامیر اور حکمران طبقات چاہتے ہیں کہ استحصالی نظام قائم رکھا جائے اورجاگیردار، سرمایہ دار طبقہ کےسامراجی مقاصد پورے ہوتے رہیں اور نوجوانوں کے اندر قومی ترقی کے لئے اجتماعی فکر بیدار نہ ہوسکے۔
آج ہمیں اپنے نظام تعلیم کا مکمل جائزہ لینا ہو گا۔ کہ کیا یہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق ہے؟ اس کا نظریہ آزاد قوم کا ہے یا غلام قوم کا ہے؟ کیونکہ زوال شدہ معاشرے میں فرسودہ نظام تعلیم کی پہچان جذباتیت، انفرادیت، سرمایہ وشخصیت پرستی اور تاریخ سے لا علمی ہوتی ہے۔ اور اسی نظام کے تحت انفرادی ترقی، خود غرضی اور انفرادی اصلاح کے تصورات غالب آ جاتے ہیں۔ اور قومی اداروں کی تشکیل، اہمیت اور اثرات کا تصور موہوم اور ناپید ہو جاتا ہے۔ تاریخ سے لاعلمی اور یاد داشت کی کمزوری جیسے امراض کی وجہ سے ہر بار ایک نئے دھوکے کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں سب سے اولین اور بنیادی کام نوجوانوں کوجذباتیت، انفرادیت اور شخصیت پرستی سے نکال کر علم، عقل و شعور، اجتماعی جد و جہداور تاریخی تسلسل کی طرف لے کر جاناہے۔ پھر ہی ایک بہتر اور خوشحال معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔جدید سائنسی تعلیمی انسان کو معاشرتی اقدار سے دور کرتی ہے اور انسان میں الحادی فکروں کو پروان چڑھاتی ہے ۔ انسان کو اجتماعیت اور حقیقت پسندی جیسی عادات سے کنارہ کش کردیتی ہیں۔ خود غرض اور نفس کی پیروی پر آمادہ و تیار کرتی ہیں۔مذہب سے دوری اور اخلاقی دیوالیہ پن جدید سائنسی تعلیمات کے اثرات ہیں۔جبکہآرٹس یا عمرانی علوم انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تہذیبی اور ثقافتی ورثے اور تاریخی روایات کو زندہ رکھنے اور معاشرے میں رواج دینے میں زینے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ خالق اور مخلوق کے درمیان رشتے کو مضبوط کرتے ہیں۔ ایثار،قربانی،رواداری اور وطن پرستی جیسے اوصاف پیدا کرتے ہیں اور انسان کو اس کے اصل سے روشناس کرواتے ہیں۔
انہی علوم اور مضامین کی بدولت انسان میں آگاہی اور خودشناسی پیدا ہوتی ہے۔ انسان خودار ہوجاتا ہے اور یہی خودداری اس کے لیے کامیابی و کامرانی کا باعث بنتی ہے۔جبکہ جدید سائنسی تحقیقات اور علوم قوموں اور ملکوں کے درمیان دوریوں اور نقصان دہ مقابلے کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ ہر شخص اور ملک دوسرے پر حکمرانی اور قبضے کے خواب دیکھتا ہے اور اپنے مخالف کو اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔مفاد پرستی اور دوسروں کا استحصال عام ہوجاتا ہے۔
علامہ اقبال نے جدید سائنسی علوم کے متعلق ہی کہا تھا کہ !!
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ
اور
کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
اور
شکایت ہے یا ربّ مجھے خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ دور جدید کے تقاضوں اور رفتار زمانہ کا ساتھ دینے کے لیے سائنسی علوم میں مہارت ازحد ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی اقدار و روایات کے امین اور اخلاقی و معاشرتی نظریات و تصورات کے محافظ عمرانی مضامین کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی ہوگی تب ہی ہم حقیقی معنوں میں ترقی اور اوج کمال حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے آباء کے وارث بن سکت ہیں

AIOU Solved Assignment Code 411 Spring 2024

ANS 02

ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہر حقیقت پر مبنی دعوے کی جانچ پر زور ہے جو غیر افسانوی ادب کے متن میں مرقوم ہے تاکہ سچائی اور صحت کلام کی پڑتال کی جا سکے۔ یہ تحقیق یا تو متن کی اشاعت سے پہلے کی جا سکتی ہے یا پھر اس کے بعد یا کسی اور ذریعے سے فروغ کے بعد ممکن ہے۔ حقائق کی تحقیق نجی طور پر ممکن ہے، جیسا کہ ایک رسالے کا مدیر یہ چاہے کہ کسی خبروں پر مشتمل مضمون کے مواد کو جانچا پرکھا جائے، اشاعت سے پہلے یا اس کے بعد۔ اسے اندرونی حقائق کی تحقیق کہا جاتا ہے۔ متبادل طور پر، حقائق کی تحقیق کا تجزیہ چھپ بھی سکتا ہے، جس صورت اسے بیرونی حقائق کی تحقیق کہا جاتا ہے۔ دور حاضر میں حقائق کو ثابت کر نے کے لیے کن اصولوں کی ضرورت ہے؟موجود ہ حا لات میں حقائق کو ثابت کر نے کے لیے چوں کہ مادی امور(Substantial events)اور حسی مواد(Perceptible materials)کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے، اِس لیے اِسی تناسب سے طریقہٴ اِستدلال میں کلیاتی منہج (Holistic approach) کی طرف اِلتفات کم ہو گیا ہے ۔یہ بات ڈاکٹر یوسف امین صاحب نے ایک موقع پر کہی تھی ،اورمحسوس یہ ہوتا ہے کہ اُن کی یہ شکایت بجا ہے؛ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں جب تک سائنس،ماڈرن فلاسفی اور قدیم فلسفہ،اِ ن تینوں کو پیشِ نظررکھ کر بات نہ کہی جائے ،اُس وقت تک مسائل کا حل پیش کر پا نا،اور صحیح فکر متعین کرنا مشکل ہے؛کیوں کہ:

۱۶،ویں صدی عیسوی کے ماڈرن عہد سے زور پکڑنے والا سائنسی مزاج اپنی تمام تر جولانی کے ساتھ آج ہمارے سامنے مو جود ہے؛اس لیے اس کی ضرورت پر دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اورماڈرن فلاسفی کو زیرِ بحث لانا؛ اس لیے ضروری ہے کہ :

۱۷ ویں صدی سے لے کر اب تک جتنے اہم اِزم، افکاراور نظریات ہیں،اُن کے بانی اور موجد فلسفی ہیں،خواہ اُن موجدین کی شہرت اپنے اپنے وقت کے بڑے بڑے سائنس داں ہونے کی حیثیت سے کیوں نہ رہی ہو؟رہاقدیم فلسفہ،تو:

قدیم فلسفہ کا ایک خاص مزاج اور خاص خصوصیت ہے،جس کی وجہ سے اُس کا سہارا لینا ضروری ہے۔وہ خصوصیت یہ ہے کہ اس نے مٹیریلزم(Materialism) سے اپنا دامن بچا کر خالص عقل و حکمت پر مبنی دلائل و براہین اور کلیات و اصول مقرر کیے ہیں۔پھر اس قدیم فلسفہ کے حوالے سے اُن فلاسفہ کی نظر زیادہ دقیق اور باریک ہے،جوآسمانی ہدایات(Divine law)کے پابند رہ کر باطنی علوم،وجدان ووحی(Revalation)سے اِستفادہ کرتے ہیں۔اِن باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ:

عہد جدید(۱۷ ویں تا ۲۰ویں صدی عیسوی)میں شاہ ولی ا لله صاحب کے بعد ۱۹ ویں اور بیسویں صدی میں علی الترتیب امام محمد قاسم نا نوتوی اور حکیم ا لامت مولانا اشرف علی تھانوی کے نام بہت نمایاں ہیں۔اِس موقع پر حیات اور ذی حیات کی ماہیت سے متعلق اہلِ سائنس کے ذکر کردہ معیار کا ایک اِجمالی جائزہ، امام محمد قاسم نا نوتوی کے اصولوں کی روشنی میں پیش کیا جا تا ہے۔

ذی حیات و غیر ذی حیا ت(Living& Non living)

ذی حیات اجسام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے سائنس میں یہ باتیں ضرو ری قرار دی گئی ہیں:

(ا) خلیہ(cell) سے بنے ہوتے ہیں۔(۲) تولید و تناسل ہو تا ہے(۳)نشو و نماپایا جا تا ہے (۴) اپنی غذا تیار کرتے اور اُسے استعمال کرتے ہیں۔(۵)اپنے ما حول سے تاثر اور احساس ،ان میں پایا جا تا ہے(۶) ان میں حرکت پا ئی جاتی ہے۔ (۷) تنفس پایا جا تا ہے(۸) فضلات خارج ہو تے ہیں۔اِس معیار کے تحت انسان،حیوانات،بیکٹیریا،پروٹسٹ(خوردبینی اجسام کی ہی ایک قسم)، فنجائی ،طحلب(کائی،algae) اورنبا تات ذی حیات میں داخل کیے جا تے ہیں۔اِس کے برعکس غیرذی حیات اجسام میں نشو و نما،حرکت،تنفس،فضلات کا اِخراج وغیرہ حیات سے متعلق کوئی بات نہیں پا ئی جا تی:جیسے تمام جمادات ؛ مٹی ،ہوا،معادن،روشنی اور پانی وغیرہ،یہ سب غیر ذی حیات ہیں۔

مگر ذی حیات اور غیر ذی حیات کی اِس ماہیت کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو نا چا ہیے کہ یہ وضاحت استقرائی اصول(Inductive method)پر مبنی ہے؛اس لیے اِس کو حتمی اور قطعی قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ ۱۹ ویں صدی عیسوی کے عظیم عبقری مولا نا محمد قاسم نا نوتوی نے اِس کے بر عکس ایک دوسری تحقیق پیش کی ہے ۔

وجود(Existence):

مولا نا محمد قاسم نا نوتوی کی تحقیق کی رو سے ذی حیات اور غیر ذی حیات کا مذکورہ معیار (criteria)اُس وقت تک ناتمام رہتا ہے؛ جب تک اِس میں ”وجود “کی بحث کو شامل کر کے ”موجود “کے اجزاء پر کلام نہ کیا جا ئے -اجزاء سے مراد وہ دو چیزیں جو ہر موجود میں پائی جاتی ہیں جنہیں حضرت نانوتوی کے محاورہ میں”وجود“ اور” ذات“ کہتے ہیں، اُن کے خواص و اوصاف کا جائزہ، جب تک نہ لے لیا جائے اور تجزیہ کر کے ، الگ الگ روشنی ڈال کر ان کی ماہیتیں واضح نہ کر دی جائیں ۔نیز یہ نہ بتلا دیا جا ئے کہ کسی بھی موجودکی ”ذات“ یعنی اُس کا اپنی خصوصیات کے ساتھ تشخص اُس وقت تک پا یا نہیں جا سکتا؛ جب تک کہ اُس کے ساتھ” وجود “شامل نہ ہو۔اور وجود جب بھی شامل ہو گا ،حسبِ استعدادِ ”قابل“(object)اپنی خصوصیاتِ سبعہ (حیات، علم، مشیت، کلام، ارادہ، قدرت، تکوین) کے ساتھ شامل ہو گا۔اِس معیار پر حیات، شعور،علم،ارادہ وغیرہ صفات نہ صرف انسان ،حیوان اور نبات میں؛بلکہ ہر موجود حجر،شجر،جماد،میں پائی جانی ضروری ہیں ۔

حیات :

انسا ن اور حیوانات میں تو حیات کی گفتگو خارج از بحث ہے۔رہے نبا تات و جما دات،تو نبات میں اہلِ سائنس حیات کے قائل ہیں،اور اِسی وجہ سے وہ اِ س کے بھی قائل ہیں کہ درختوں کے تنے اپنی توانائی حاصل کرنے کے لیے خود کو آفتاب کے محاذات میں لانے کے وقت حرکت کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: www.bbc.uk/education/clips/zyvs34j،نیز gravitotropism in plant)لیکن جمادات میں ،وہ اِس شعور و حیات کی موجودگی کے منکرہیں۔ حیات سے متعلق سائنسدانوں اور فلسفیوں کی ذکر کردہ مذکورہ ماہیت کو مزید وسعت دیتے ہوئے مشہور مفکر و محقق امام محمد قاسم نانوتوی (۱۸۳۳تا۸۸۰ا)نے اپنی ایک تحقیقی گفتگو میں یہ اہم اورحیرت انگیز نتیجہ پیش فرمایا ہے کہ:

”ما سوا انسان اور حیوانات کے زمین،آسمان،درخت،پہاڑ؛بلکہ مجموعہٴ عالم“ کے لیے حیات اور روح ثابت ہے۔اور یہ کہ :

 ”ہر ہر شی میں جان ہے،اور ہر ذرہ اور ہر چیز کے لیے ایک روح ہے۔“

طبیعت:

اسی طرح فلسفہ اور علم طبعی میں”طبیعت “کی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسی قوت ہے جس میں خود توشعور اور ارادہ نہیں ہو تا؛لیکن ہر شعوری اور ارادی حرکت کی ذمہ دار ہو تی ہے۔اِس لحاظ سے حرکت کی بھی تین قسمیں کی گئی ہیں۔ (۱)حرکتِ ارادی(Voluntary movement)  (۲)حرکتِ طبعی(Immanently Movement)  (۳)حرکتِ قسری(Involuntary movement) لیکن امام محمد قاسم نا نوتوی کے نزدیک یہ تقسیم مخدوش ہے۔وہ حرکتِ طبعی کا-اس معنی میں جس کے فلاسفرز اور سائنسداں قائل ہیں-انکار کرتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ حرکت کی صرف دو قسمیں ہیں:(۱)حرکتِ ارادی (Voluntary movement) (۲)حرکتِ قسری (Involuntary movement)۔ رہی حرکتِ طبعی،تو اُس کو وہ حرکتِ ارادی (Voluntary movement)کی ہی ذیلی قسم قرار دیتے ہیں؛ کیوں کہ شی کی طبعی حرکت کا یہ مطلب کہ وہ فاعل کے ارادہ کے بغیر صادر ہو رہی ہو-حضرتِ نانوتوی کے بیان کے بموجب،دلائل کی روشنی میں- نہ صرف یہ کہ ناثابت ہے؛بلکہ نا قابلِ ثبوت ہے،جس کی دلیل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

”کون نہیں جانتا کہ فاعل بے ارادہ ایک مفہومِ بے مصداق؛بلکہ ممتنع (محال)ہے۔فعل کے لیے فاعل میں ارادہ شرط ہے،ورنہ وہ اُس کا فعل نہیں ،کسی قاسر (مجبور کرنے والی قوت)کا فعل ہے۔ بہر حال فعلِ فاعل (دو قسموں)ارادی اور قسری میں منحصر ہے۔فعلِ طبعی ظاہر میں قسم ثالث ہے، ورنہ غور سے دیکھو،تو انہی (ارادی اور قسری)میں داخل ہے۔“

موصوف کے قول کے مطابق فعلِ ارادی میں ارادہ نمایاں اور ظاہر ہوتا ہے؛جب کہ فعلِ طبعی میں ارادہ مخفی اور پوشیدہ ہوتا ہے؛لیکن ہوتا ضرور ہے۔ امام محمد قاسم نا نوتوی کی یہ تحقیقات جو ”وجود“،”ذات“،اِن دونوں کے ما بین ربط(connection)،”حیات“،”روح“ اور ”طبیعت“ سے متعلق ہیں ،نہایت درجہ اہمیت کی حامل ہیں۔اِن تحقیقات کی روشنی میں نہ صرف جدید فلسفہ کے بعض عقدے کھولے جا سکتے ہیں؛بلکہ ایک طرف جہاں سائنس کے بعض قوانین کے اِجرا و اِطلاق کی نوعیت واضح کی جا سکتی ہے،وہیں دوسری طرف مذہبِ اسلام کے متعدد مسائل سے متعلق فلسفہ اور سائنس ،دونوں کے اِضطرابات کو بھی،اِن تحقیقات کی رو سے دور کیا جا سکتا ہے۔اِس کی کچھ تفصیلات احقر کی مرتب کردہ کتاب ”الامام محمد قاسم النانوتوی اور جدید چیلنج“ باب۱۰کے تحت دیکھی جا سکتی ہیں۔

AIOU Solved Assignment 1 Code 411 Spring 2024

ANS 03

’’ عمرانیات بنیادی طور پر معاشرے میں انسان کا سائنسی اور معروضی مطالعہ، سماجی اداروں کا مطالعہ اور سماجی طریقوں کا مطالعہ ہے۔ جو ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے کہ معاشرہ کس طرح ممکن ہے، کس طرح یہ کام کرتا ہے اور اس کو استقرار کیوں کر ہے۔‘‘ 16؎

اس مصنف نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور ازدواجی اداروں کی ترکیب سے جو سماجی ڈھانچہ بنتا ہے اگر اس کا وقت نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ایک تصویر ابھرتی ہے اگرچہ ہمیشہ بہت واضح نہیں ہوتی۔ مگر اس میں انسان کو مختلف طریقوں پر معاشرے میں سماجی اور معاشرتی گروہوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سماجی تربیت سے افراد کی معاشرے کے ساتھ وابستگی مستحکم ہوتی ہے۔ جہاں انہیں متعلقہ سماجی مناصب تفویض کئے جاتے ہیں۔ جنہیں وہ قبول کر کے معاشرے کے فعال افراد بنتے ہیں۔17؎

معاشرہ بہرحال اپنے وجود کے لئے فرد کا محتاج ہے۔ فرد معاشرے کی ایک اکائی ہے۔ اس کے مناصب اور افعال و اعمال معاشرے کی مجموعی حالت پر اثر انداز ہوتے ہیں مگر اس کے یہ افعال و اعمال نہ تو وجود میں آ سکتے ہیں او رنہ ہی اس سے معاشرتی اہمیت اور نوعیت کا کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ جب تک فرد کسی دوسرے فرد یا افراد سے مل جل کر کام نہیں کرتا۔ افراد کے باہمی میل جول سے جو کام سر انجام پائیں انہیں علم عمرانیات کی اصطلاح میں معاشرتی عمل (Social action) کہا جاتا ہے۔ جب کسی معاشرے کے دو یا دو سے زیادہ افراد اپنے کسی باہمی عمل سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوں تو عمل کی اس نوعیت کو تفاعل (interaction) کہتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں تفاعل کا آغاز پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ فرد پیدائش کے وقت ہی سے دوسروں کے رویے کو متاثر کرتا ہے اور خود اپنے گرد و پیش کے افراد اور ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ تفاعل کی نوعیت میں مختلف عناصر حصہ لیتے ہیں۔ یوں فرد ایک شخص بنتا ہے اور پھر اس تفاعل کے ذریعہ اس کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ بہرحال انسان پیدائش سے وفات تک تفاعل کی حالت میں رہتا ہے۔ 18؎ انسان کو اپنی زندگی کے دوران تفاعل کی کئی صورتوں مثلاً معاشرتی تعاون، معاشرتی مسابقت اور مقابلہ اور تصادم سے سابقہ پڑتا ہے۔ ان صورتوں سے معاشرتی ترقی کے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور ا سکے بہت سے معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ گویا معاشرتی زندگی میں ساری رونق اور گہما گہمی انسان کی سرگرمیوں کی بدولت ہے۔

اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فرد اور معاشرہ دو جداگانہ چیزیں نہیں ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کو الگ الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ فرد اور معاشرہ متوازی طور پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔مگر اس بات سے ایک غلط فہمی کا امکان ہے کہ ہم شاید فرد کو ایک خود مختار شخصیت قرار دے رہے ہیں۔ چونکہ معاشرے کے ارتقاء کے لئے معاشرتی امن و امان اور نظم و ضبط ایک بنیادی تقاضا ہے۔ اس کے لئے افراد میں ہم آہنگی کے علاوہ معاشرتی اقدار کی پاسداری اور معاشرتی قوانین کی اطاعت لازمی ہو جاتی ہے۔ انسانوں کی طبیعت میں اپنی سہولت یا اغراض کی وجہ سے معاشرتی اقدار سے انحراف اور قوانین سے تجاوز کا رحجان موجود ہوتا ہے۔ اس لئے معاشرے کو افراد کے اس رحجان پر قابو پانے کے لئے کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ عمرانی ماہرین اس کارروائی کو معاشرتی انضباط (Social Control) کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جس سے ان کی مراد وہ نظام طریق ہے جس سے معاشرہ افراد کو مسلمہ رویوں سے مطابقت پیدا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 19؎ بلیک مار نے اس مسئلہ پر بڑی متوازی رائے قلمبند کی ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’ دنیا میں فرد جماعت سے الگ ہو کر کچھ نہیں کر سکتا گوہر ذی شعور اپنے اعمال و افعال سے ظاہر یہی کرتا ہے کہ مجھے اپنی زندگی پر پورا اختیار ہے اور اپنی مرضی سے جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ اس کا ہر فعل اس خیال پر مبنی ہوتا ہے کہ میں فاعل مختار ہوں اور دوسروں کے جذبات و خیالات کا لحاظ کئے بغیر اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہوں۔ لیکن سچ پوچھئے تو کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کے افعال دوسروں کے اثرات سے آزاد ہوں۔ جہاں دیکھئے یہی نظر آتا ہے کہ اجتماعی زندگی انفرادی عمل کی حد بندی کرتی ہے اور اس پر بہت کچھ اثر ڈالتی ہے۔ حکومت ہو یا مذہب یا صنعت و حرفت یا تعلیم، یا تدبیر منزل غرض جدید زندگی کے رہ شعبے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ وہ مخصوص اغراض کے لئے اتحاد عمل، باہمی شرکت اور تنظیم سے کام لیتے ہیں اور کوئی شخص محض اپنی ذات کے لئے زندگی بسر نہیں کرتا۔ اسی سعی اور عمل کے اتحاد سے معاشرہ بنتا ہے۔‘‘20؎

جیسا کہ معلوم ہوا ۔ عمرانیات معاشرہ اور اس کے اندر انسان کی معاشرتی زندگی کا مطالعہ ہے۔ جس کا آخری مقصود و مطلوب معروضی علم کو ترقی دے کر زندگی کے ساتھ انسان کی مطابقت کو بہتر بنانا ہے 23؎ رائٹ اور رینڈال کے مطابق عمرانیات کو ایسا مطالعہ ہونا چاہئے جس کے نتائج جماعتوں کے لوگوں کو اپنی معرفت اور اپنے معاشرہ کی تفہیم میں مدد دیں۔ 23؎

انسان ازل سے اپنی ذات کی معرفت، ہم جنسوں کو سمجھنے، ماحول کو جاننے اور کائنات کے اسرار و رموز دریافت کرنے کی جستجو کرتا رہا ہے۔ انسان کی ساری تہذیبی اور تمدنی زندگی کا ارتقاء انسان کی اسی تلاش و جستجو کی بدولت ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش انسان کی فطرت کا خاصہ ہونے کے علاوہ سماجی عمل کا تقاضا بھی ہے۔ چونکہ تغیر فطرت کا ایک دائم و قائم اصول ہے اس لئے جو معاشرے اس حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھتے کہ

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

وہ جمود اور زوال کا شکار ہو جاتے ہیں علامہ اقبال نے اپنی فکری زندگی کے آغاز میں عمرانیات کی اس بنیادی قدر کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ افکار اقبال کے ایک سرسری مطالعہ سے بھی یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ اقبال نے اپنی فکر کے ہر دور میں اس بنیادی عمرانی قدر کو اپنے پیش نظر رکھا ہے کہ طرز کہن پر ہٹ دھرمی اختیار کرنے کی بجائے آئین نو سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنی چاہئے کیونکہ یہ رویہ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اسی لئے افراد و اقوام کی حیات تازہ کا ضامن ہے۔

AIOU Solved Assignment 2 Code 411 Spring 2024

ANS 04

تہوار خوشی کی دوسری صورت ہوتے ہیں، وہ چاہے مذہبی تہوار ہوں یا ان کا تعلق ثقافت سے ہو۔ انسانوں کے لیے تہوار مسّرتیں لے کر آتے ہیں، مگر جس طرح گزشتہ کچھ عرصے سے دنیا ’کورونا‘ جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے، اس نے تمام خوشیوں کے راستے معدوم کر رکھے ہیں۔جبری فرصت (لاک ڈاؤن) نے ہمیں ایک محدود طرزِ زندگی میں دھکیل دیا ہے۔ اس بار آنے والی عید بھی عید نہیں ہے بلکہ احتیاطی تدابیر پر عمل کر گزرنے کا ایک مرحلہ ہے، جس میں ہم سب کوشاں ہیں۔ کورونا کی وبا نے جہاں ایک طرف ہمارے تہواروں کو اداس کردیا ہے، وہیں دوسری طرف ایک اور موسم ہے، جس کی واپسی ان حالات میں شدت سے ہوئی ہے اس کو ہم ’ناسٹیلجیا‘ کہتے ہیں۔ایک زمانہ وہ بھی تھا، جب عید حقیقی معنوں میں عید ہوا کرتی تھی۔ عید صرف ایک تہوار نہیں تھا بلکہ اس سے جڑی ہوئی لاتعداد خوشیاں تھیں جن کی خوشبو سے ذات اور زندگی کا ہر پہلو مہک اٹھتا تھا۔ دوستوں کو خط لکھنے سے لے کر عید کارڈ لکھ کر بھیجنے تک ہر عمل سرشاری میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ اب ہر طرح کی سہولت میسر ہے، ٹیکنالوجی کی رسائی بھی مہیا ہے لیکن ہم خوشی کا احساس اتنی گہرائی سے محسوس نہیں کرسکتے جس طرح ماضی میں عید کا ہنگامہ برپا ہوا کرتا تھا اور ہماری خوشیوں کا محور عیدِ سعید ہوا کرتی تھی۔کورونا سے محدود کیا ہوئے، لاشعور میں دبکے ہوئے ناسٹیلجیا نے یکایک ہم پر اپنا غلبہ پالیا۔ عید کے روز گھر کے بزرگوں سے عیدی لینا، میٹھا کھانے سے دن کی شروعات، ٹیلی وژن سے عید کے لیے تیار کیے گئے خصوصی ڈرامے بشمول عید کی خصوصی نشریات اور اس موقعے پر پاکستانی فلموں کا عید پر ریلیز ہونا، حتیٰ کہ ٹیلی وژن سے بھی مختلف فلموں کا نشر کیا جانا، یہ سب اس ناسٹیلجیا کی تصویریں ہیں، جو یادوں کے دالان میں بکھری پڑی ہیں۔صحافت میں آیا تو کوئی عید ایسی نہ گزری جب ریلیز ہونے والی کسی فلم کا پہلا شو دیکھ کر اس کا تبصرہ نہ لکھا ہو۔ اب تو 2 سال ہونے کو آگئے، سنیما آڈیٹوریم بھی ویران ہوچکے ہیں۔ کوئی فلم ہی ریلیز نہیں ہوئی ہے۔پاکستان ٹیلی وژن کے سنہرے دور میں یہ بات ناگزیر ہوتی تھی کہ خاص مواقع پر مختصر اور طویل دورانیے کے ڈرامے پیش کیے جائیں۔ صرف یہ کوششیں عید تک ہی محدود نہیں ہوتی تھیں بلکہ نئے سال کی آمد، یومِ دفاع، یومِ آزادی سمیت پاکستان کی ممتاز اور بڑی شخصیات کی سالگرہ اور وفات کے تناظر میں بھی دستاویزی فلمیں نشر کی جاتی تھیں۔اسی طرح اخبارات اور رسائل و جرائد خصوصی صفحات اور خصوصی ایڈیشن نکال کر ایسے مواقع کی اہمیت کو بیان کیا کرتے تھے۔ ٹیلی وژن سے یومِ پاکستان کے موقع پر خصوصی پریڈ بھی نشریات کا ایک اہم حصہ ہوتی تھی، جو ہماری یاداشت میں اب تک محفوظ ہے۔ گویا تفریح میں بھی تعلیم و تربیت کا عنصر شامل ہوا کرتا تھا، جس سے نئی نسل کی فکری آبیاری کی جاتی تھی۔ایک لمحے کے لیے ہم 70ء اور 80ء کی دہائی میں نشر ہونے والے ان ڈراموں کو یاد کریں جن کا سلسلہ 90 کی دہائی تک پھیلا ہوا ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صرف ہمارے لیے ڈرامے ہی نہیں بلکہ ہمارا بچپن ہیں۔ ان کو ہم جب بھی دیکھتے ہیں تو ہمارا بچپن بھی ان کے ساتھ ساتھ لوٹ آتا ہے۔یہ ناسٹیلجیا کا ایسا دور ہے جس میں ہم کھو جاتے ہیں۔ ایسے ڈراموں میں وارث، اَن کہی، دھواں، تنہائیاں، آنگن ٹیڑھا، الف نون، خدا کی بستی، جانگلوس، عروسہ، اندھیر اجالا، آہٹ، عینک والا جن، سونا چاندی، گیسٹ ہاؤس، آنچ، ہوائیں، شمع، راہیں، دھوپ کنارے، دشت، الفا براوو چارلی، انکل عرفی، ریزہ ریزہ، فشار، شب دیگ، خواجہ اینڈ سن، شہزوری، ہاف پلیٹ، من چلے کا سودا، سمیت کئی دیگر یادگار ڈرامے تھے۔پھر یہ جنجال پورہ سے دستک اور دروازہ تک آتے آتے، لنڈا بازار جیسے ڈراموں تک آکر اپنا جادو کھو بیٹھے۔ یہ ڈراموں کی صورت میں وہ یادیں ہیں جو درحقیقت ہمارا بچپن ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز پر عید کی مناسبت سے اس طرح کے ڈرامے نہیں بنتے جس کی وجہ سے عید میں کچھ کمی کمی سی محسوس ہوتی ہے۔پھر اب نہ وہ ڈرامے ہیں نہ وہ موسم، ہر طرف کورونا کی وبا میں مبتلا انسان ہیں اور اپنے گھروں تک محدود ان کے ذہنوں میں یورش کرتا ناسٹیلجیا کہ جس میں سنہری ماضی اور انسانی زندگی کی خوبصورتیاں ہر دم جگمگ ہیں۔ فلم کے شعبے میں تو لگتا ہے کہ یہ عیدوں کے تہوار سے جڑ کر فروغ پاتی رہی، ہر عید پر فلموں کا ریلیز ہونا ہماری معاشرتی ثقافت کا اہم جزو بن چکا تھا۔ اب جو متحرک نہیں رہا۔کیا ہم زندگی میں دوبارہ کبھی ان تہواروں کو اسی طرح پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہوا دیکھ سکیں گے؟ دنیا واپس اپنی موج میں لوٹ سکے گی؟ کیا ہمارے ہاں ٹیلی وژن اور فلم کا میڈیم اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس بحال کرسکے گا؟ نئے چیلنجز کا سامنا کرسکے گا؟ نئی ضرورتوں کے مطابق تخلیقات کو سمیٹ سکے گا؟ اس طرح کے بہت سارے سوالات مستقبل کا چہرہ لیے کھڑے ہیں جن کے جوابات سے ہی اس کی صورت واضح ہوگی، لیکن فی الحال راوی اداس ہے۔ کہانیاں خاموش، اسکرینیں ویران، گھر کے دالان سُونے، راہداریاں خاموش اور ناسٹیلجیا کا شور زوروں پر ہے۔

AIOU Solved Assignment Code 411 Autumn 2024

ANS 05

1

بطور معاشرتی بہبود عوامل کا ایک مجموعہ جو ایک ساتھ جمع ہوتا ہے تاکہ معاشرے کے ممبران اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکیں اور ، اس کے نتیجے میں ، معیار زندگی کی بہترین سطح ہے۔معاشرتی فلاح و بہبود کا اظہ

بطور معاشرتی بہبود عوامل کا ایک مجموعہ جو ایک ساتھ جمع ہوتا ہے تاکہ معاشرے کے ممبران اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکیں اور ، اس کے نتیجے میں ، معیار زندگی کی بہترین سطح ہے۔

معاشرتی فلاح و بہبود کا اظہار آبادی کی معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں کیا جاتا ہے: تعلیم ، صحت ، خوراک ، رہائش یا صارفین کی اشیا تک رسائی ، اور دیگر چیزوں کے علاوہ۔

معیارِ زندگی بھی دیکھیں۔

کچھ معاشی اعداد و شمار جو حقیقت سے ظاہر ہوتے ہیں ، جیسے کہ فی کس آمدنی ، مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) ، آمدنی کی تقسیم ، بے روزگاری کی شرح اور غربت کی شرح ، دوسروں کے درمیان ، ہمیں معاشرتی بہبود کے محض ایک پہلو کی پیمائش کرنے کی اجازت دیتی ہیں: ملک کی معاشی بہبود، سامان اور خدمات کی تیاری اور اس میں اپنے شہریوں کی رسائی کی صلاحیت۔

بہر حال ، معاشرتی عوامل بھی فلاح و بہبود کو متاثر کرتے ہیںجیسے صحت کے نظام تک رسائی ، تعلیم کی سطح ، تحفظ کا احساس ، شہریوں کی آزادی ، مساوات ، معاشرتی انصاف ، صحت مند ماحول اور اس کے ممبروں کی ذاتی تکمیل کا امکان۔ اس لحاظ سے ، سماجی بہبود کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے انسانی ترقی.

انسانی ترقی بھی دیکھیں۔

تاہم ، کسی معاشرے کی معاشرتی بھلائی کی پیمائش کرنے میں ، شہریوں کے وہ حقیقت میں جس میں وہ رہتے ہیں اس کے ساپیکش تاثر کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے ، جس کا تجزیہ مطالعات اور سروے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

عام فلاحی شق ایک ایسا طبقہ ہے جو بہت سارے دستوروں کے ساتھ ساتھ کچھ چارٹروں اور آئینوں میں بھی سامنے آیا ہے ، جس میں یہ فراہم کیا گیا ہے کہ دستاویز کے ذریعہ اختیار کردہ گورننگ باڈی لوگوں کی عمومی فلاح و بہبود کے فروغ کے لئے قوانین نافذ کرسکتی ہے ، جسے بعض اوقات عوامی فلاح و بہبود بھی کہا جاتا ہے۔ . کچھ ممالک میں ، اس کے تحت حکومت کرنے والے لوگوں کی صحت ، حفاظت ، اخلاقیات اور فلاح و بہبود کو فروغ دینے والے قانون سازی کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ انصاف پسندی کا اصول ہے جو مجموعی طور پر معاشرے کے ساتھ باہمی تصادم کے رشتے سمیت انفرادی مفادات کو ہم آہنگ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ، اس کے مندرجات تاریخی طور پر بدل چکے ہیں۔ خاص طور پر تھامس ایکواینس کے خیال میں ارسطو کو اصل میں کھوج لگاتا ہے۔ جدید ظلم میں ریاستی طاقت کو دولت مند ملیشیا کا نشانہ بنائے ہوئے لوگوں کی زندگیوں پر قابو پانے کی بنیاد سمجھا جاتا تھا ، لیکن جدید شہری ریاست کا مطلب شہریوں کی آزادی کو ریاستی طاقت کی خلاف ورزی سے بچانا ہے۔ یہ آزاد عوام کی طرح عوامی فلاح و بہبود افراد کے حقوق کے تنازعہ کو ایڈجسٹ کرنے کا ایک غیر فعال اصول تھا ، لیکن جیسے جیسے معاشرتی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کی ترقی میں وسعت آرہی ہے ، ریاست نے عوام کی فلاح و بہبود کے روایتی معاشی حقوق کو محدود کرنے کی بنیاد بنائ گی۔ آزادیاں۔ یہ سماجی قومی عوامی بہبود کا فلسفہ ہے۔ جاپان میں موجودہ آئین اس وقت تک بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے جب تک کہ وہ عوامی فلاح و بہبود کی خلاف ورزی ، عوامی فلاح و بہبود کے ذریعہ رہائش ، نقل مکانی ، قبضے کے انتخاب اور جائیداد کے حقوق کی عدم خلاف ورزی کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے (آئین 12 ، 13 ، 23 ، 29 آرٹیکل ). چونکہ اس فراہمی کی تشریح اس کا اطلاق کرنے والے شخص کی اقدار پر منحصر ہے ، لہذا ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اقتدار کی نیت پوری ہوجائے گی۔

2

’’حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بناء پر مرے۔‘‘(ابوداؤد)

عصب کا لفظی معنی ہے’’ بدن کا پٹھہ‘‘ اور عصبہ عربی زبان میں والد کی طرف کے رشتہ داروں کو کہتے ہیں کیونکہ معاشرہ میں عموماً دادھیال (باپ کے رشتہ دار) ہی کی وجہ سے خاندان کی تقویت کا معیار سمجھا جاتا ہے اور انہی رشتہ داروں کی طاقت کو اگلی نسل اپنی طاقت سمجھتی ہے اس لیے عصبیت اور تعصب کا مفہوم اہل لغت نے یہ بیان کیا کہ ’’ اپنے آباؤ واجداد اور اپنی قوم پر فخر کرنا، ان کی حمایت کرنا‘‘لیکن اسلامی اصطلاح میں تعصب کا مفہوم رسول اکرمؐ نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا، جب واثلۃ بن الاسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہؐ! عصبیت کیا ہے) فرمایا،عصبیت یہ ہے کہ تو ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرے۔

اسلامی احکام کے مطابق خاندان، قبیلوں، برادریوں، ذاتوں، علاقوں، صوبوں اور شہروں کی تقسیم اور ان کی بناء پر انسانوں کی تقسیم خلاف فطرت نہیں، بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو، اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سے سب سے سب زیادہ پرہیز گار ہے۔     (الحجرات:13)

تفسیر مظہری میں امام بغوی سے روایت ہے کہ یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر اس وقت نازل ہوئی جب کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت بلال حبشی کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔ قریش مکہ جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے ان میں سے ایک شخص نے کہا’’ خدا کا شکر ہے کہ میرے والد پہلے ہی وفات پاگئے ہیں ان کو یہ برادن نہ دیکھنا پڑا اور حارث بن ہشام  نے حضرت بلال      کے رنگ کے حوالے سے سخت کلمات کہے ابوسفیان بولے میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ میں کچھ کہوں گا تو آسمان کا مالک ان کو خبر کردے گا‘‘ چنانچہ جبرئیل امین تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی۔

بہرحال یہ بات واضح ہوئی کہ خاندان ، برادری اور وطنی ولسانی تقسیم خلاف فطرت اور خلاف اسلام نہیں لیکن آج اس کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ اس تقسیم کا مقصد اللہ تعالیٰ نے بتایا یعنی اس تقسیم کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں ایک دوسرے سے تعارف ہوسکے کہ یہ شخص فلاں ملک میں سے فلاں صوبہ کے فلاں شہر کے فلاں قبیلہ اور برادری کے فلاں خاندان سے ہے لیکن اب یہ تقسیم تعصب کے لیے استعمال ہونے لگی ہے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنے خاندان یا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت میں داخل نہیں۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں عبادۃ بن کثیر شامی سے ایک فلسطینی عورت فسیلہ نامی کی اپنے والد سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ؐسے پوچھا کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے تو کیا یہ عصبیت میں داخل ہے آپ نے فرمایا نہیں لیکن عصبیت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی حمایت کرے حالانکہ وہ قوم ظلم کررہی ہو۔‘‘

اگر اپنی قوم پر ظلم ہورہا ہو تو اپنی قوم کی طرف سے ایک حد تک دفاع کرنا بھی جائز ہے ابوداؤد میں سراقہ بن مالک بن جعشمؓروایت ہے کہ ’’ ہمیں رسول اللہ ؐنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے خاندان کی طرف سے(ظلم کی) مدافعت کرے جب تک وہ اس دفاع میں گناہ کا مرتکب نہ ہو‘‘ یعنی اپنی قوم، اپنے خاندان پر ہونے والے ظلم کا دفاع کرسکتا ہے لیکن اس میں بھی اپنی طرف سے ظلم نہ ہونے دے۔

اسلام میں ایک خاندان کو دوسرے خاندان کے نسب کی وجہ سے برا نہیں کہا جاسکتا ارشاد نبوی ہے۔’’انساب ایسی چیز نہیں کہ تم ان کی وجہ سے کسی کو برا کہو‘‘(رواہ احمد) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آباؤواجداد پر فخر کرنے سے بھی منع فرمایا قومی، نسلی اور علاقائی تعصب آج جس تیزی سے آگ کی طرح پھیل رہا ہے یہ محض اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے اللہ رب العزت نے قوم اور خاندان اور قبیلوں کی تقسیم کا مقصد محض تعارف بتایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فوراً یہ ارشاد فرمایا۔

’’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا… وہ شخص ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہو۔‘‘(القرآن)

آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہر قسم کے تعصب سے ذہنوں کو پاک کرکے صرف یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ عزت وذلت کا معیار تقویٰ ہے اللہ رب العزت ہمیں ہرطرح کے تعصب سے اور اس کے بھیانک نتائج سے محفوظ فرمائے۔

AIOU Solved Assignment 1 Code 411 Autumn 2024

 

ANS 01

آگسٹ کامٹے فرانسیسی مفکر تھا، کامٹے عموما ً بابائے عمرانیات کے لقب سے جانا جاتا ہے۔ کومٹے وہ پہلا مفکر تھا جس نے عمرانیات کو سائنس کے ساتھ ملانے کی شعوری کوشش کی۔ اس نے عمرانیات میں بہت سا کام کیا اور کئی ضخیم کتب چھوڑیں۔ وہ عمرانیات کو ’معاشرے کی سائنس‘ کہتا تھا۔ شروع شروع میں اس نے اپنی کاوش کو سوشل فزکس یا سماجی طبیعیات کا عنوان دیا بعد میں سوشیالوجی کی اصطلاح وضع کی۔ کامٹے نے اس نئے علم کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور اس کے پہلے حصے کو سوشل سٹیٹکس جبکہ دوسرے کو سوشل ڈائنامکس کہا۔ کومٹے کے مطابق سوشل سٹیٹکس ان معاشرتی عناصر و عوامل سے بحث کرتا ہے جو معاشرے کو باہم مربوط رہنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جبکہ سوشل ڈائنامکس ان عوامل و عناصر کے مطالعہ سے عبارت ہے جو معاشرتی حرکیات یعنی سماجی تبدیلی وغیرہ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ گویا بالترتیب معاشرے کے سکونی اور حرکی پہلوئوں کے مطالعے کی شاخیں تھیں۔ کومٹے کو Positivism کا بانی بھی کہا جاتا ہے اس نے Positive Philosophy (1830-42) کے نام سے کتاب لکھی جس میں اس نے اس بات پہ زور دیا کہ یقینی و حتمی علم صرف وہی ہے جو حواس خمسہ کے تجربہ میں آسکے اور خالص سائنسی طریقہ کار یعنی سائنٹیفک میتھڈ کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو۔ جارج رٹزر کہتا ہے کہ

کومٹے سائنس کا بہت مداح تھا اس نے اس بات پہ زور دیا کہ انسانی معاشرے کا مطالعہ بھی بالکل سائنسی اصولوں کی روشنی میں ہونا چاہیے یعنی جیسے فزکس کام کرتی ہے اور تجربہ سے اسے سمجھا جاسکتا ہے ایسے ہی معاشرہ بھی ایک سماجی فزکس ہی ہے اسے بھی سائنس کے اصولوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کومٹے کی سائنس سے والہانہ محبت و عقیدت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے وقت کے نامساعد حالات سے تنگ آکر ایک سائنسی مذہب کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ اس نے اپنے اس نئے مذہب میں سال کے بارہ مہینوں کے نام بھی عظیم سائنسدانوں کے ناموں پہ رکھے۔ The Law of Three Stages کومٹے کی اہم تھیوری تصور کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک لغو تھیوری ہے۔ اس قانون کی رو سے انسانی معاشرے کا ارتقا بنیادی طور پر تین ادروار میں ہوا ہے۔ پہلا دو ر جسے کومٹے Theological or fictitious stage کہتا ہے، تیرہ سو قبل مسیح ؑکا ہے، کومٹے کے مطابق اس زمانہ میں انسانیت جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ انسان ہر اس قوت کو دیومالائی تصور کرتا جس پہ اس کا اختیار نہیں تھا، پس انسان ان گنت خدائوں کو پوجتا تھا۔اس کے بعد دوسرا دور آتا ہے جسے کومٹے Metaphysical or Abstract Stage کہتا ہے۔ یہ دور تیرہ سو قبل مسیح ؑسے لے کر اٹھارہ سو بعد مسیح ؑپر مشتمل ہے۔ اس دور میں انسان نے زیادہ سمجھ بوجھ سے کام لینا اور تصوراتی دنیا سے باہر نکلنا شروع کیا۔ اس کے بعد آتا ہے Positive or Scientific Stage دور، کومٹے کے مطابق اس زمانہ میں انسان کی عقل پختہ ہوئی۔

انسان نے سب خداوں کا انکار کر دیا اور اپنی عقل سلیم کا استعمال شروع کر دیا۔یہ دور اٹھارہ سو کے بعد کا ہے۔ اور ہم اسی دور میں جی رہے ہیں۔ اس طرح گویا حضرتِ کومٹے ایک محدود خطے کے نتائج کو (رنگا رنگ معاشروں میں بسنے والے) سار ی دنیا کے انسانوں تک تعمیم دیتے ہوئے، سب کو ایک ہی ارتقائی لاٹھی سے ہانکتے نظر آتے ہیں۔ اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا بھی کوئی دشوار کام نہیں کہ کومٹے جب لفظ معاشرہ بولتا ہے تو اس سے اس کی مراد صرف ماڈرن یا جدید معاشرہ ہوتی ہے۔ یہ صاحب جب کسی غیر سائنسی ــمعاشرہکوماننےپرہیراضینہیںتوپھرعمرانیاتہرقسمکےمعاشرہکامطالعہکانامکیسےہوا؟کومٹےکےذریعےہمنےیہبتانےکیکوششکیکہعمرانیاتفقط’جدید‘معاشرےکےمطالعہتکمحدودہے،ابہمڈکہائیمکیطرفچلتےہیں۔ Émile Durkheim (1858-1917)

آگسٹ کومٹے نان اکیڈمک مفکر تھا جبکہ ایمائیل ڈرکہائیم فرانس کے پہلے پروفیسر آف سوشیالوجی کے طور پہ معروف ہے۔ ڈرکہائیم وہ پہلا شخص تھا جس نے فرانس میں جامعہ کی سطح پر عمرانیات کا پہلا باقائدہ کورس پڑھایا۔ اس نے عمرانیات کی تبلیغ کے لئے ایک اکیڈمک جرنل کا ابھی اجرا کیا تھا۔ ڈکہائیم کا زیادہ تر کام اس بات کو سمجھنے اور بیان کرنے میں صرف ہوا کہ ماڈرن سوسائٹی میں مذہب کی غیر موجودگی میں کیسے معاشرتی استحکام و ربط پیدا ہوسکتا ہے۔ ڈرکہائیم عمرانیات میں Functionalist Tradition کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ ڈرکہائیم کی بابت The Sociology Book میں یہ الفاظ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ڈرکہائیم کے خیال میں تمام انسانی تہذیبیں سادگی سے پیچیدگی میں رفتہ رفتہ منتقل ہوتی رہی ہیں (نوٹ: سماجی تبدیلی یا سوشل چینج کی بابت اس طرح کے خیالات بلا امتیاز ہر ماہر عمرانیات کے ہاں پائے ہیں، گویا یہ عمرانیات کا بنیادی وظیفہ و عقیدہ ہے)۔ روایتی معاشروں میں چونکہ روایات پرسختی سے عمل کیا جاتا تھا اور رشتوں کا تقدس، ہمسائیوں سے حسن سلوک کے ساتھ ساتھ حفظ مراتب کی بنیاد پر ہی تمام قسم کی معاشرتوں کا انحصار تھا، لہذا معاشرے آپس میں اجتماعی شعور کے ز یرسایہ نظم اجتماعی میں بندھے ہوئے تھے جو معاشرے کو استحکام بخشتا تھا اور معاشروں کی بنیاد اجتماعیت پر تھی نہ کہ انفرادیت پر۔ جبکہ جدید معاشرہ Division of Labor کے گوند سے جڑا ہوا ہے، اس معاشرے کو قائم رکھنے والی واحد قوت یہی Division of Labor ہے۔ جدید معاشرہ میں تخصص (specialization) کی وجہ سے اجتماعیت کی جگہ انفرادیت نے لے رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ جدید معاشرہ میں استحکام کا تعلق صرف اور صرف ان متخصصین کے آپس میں تعاون کے نتیجے ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی جونہی ان متخصصین کا تعلق کٹتا ہے جدید معاشرے کا پہیہ جام ہو جاتا ہے (جدید ریاست اسی تعلق کو خوش اسلوبی سے جوڑے رکھنے کے لئے وجود میں لائی گئی)۔ڈرکہائیم جدید معاشرے کو سمجھنے اور پھر اس میں پیدا ہونے والے نئے مسائل کے حل میں کوشاں رہا۔ ڈرکہائیم جدید معاشرہ کو روایتی معاشرے سے بالکل علیحدہ شے سمجھتا تھا، اور جدید معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل کو ’سماجی بیماریوں‘ کے لقب سے یاد کرتا تھا، جن کو سوچ و بچارکے بعد پُرامن طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ڈرکہائیم ان لوگوں میں شامل ہے جنھوں نے پہلے پہل مغربی معاشروں میں خود کشی کے رحجان اور اسکی وجوہات پر باضابطہ(بقول ان کے سائنسی) مطالعے کیے۔ڈرکہائیم کی کتاب Suicide: A Study in Sociology 1897 کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خودکشی کو خالص سرمایہ دارانہ معاشرے کی برکت سمجھتا تھا۔ اپنی کتاب میں اس نے مغربی معاشروں میں خود کشی کا مطالعہ اعداد و شمار کی روشنی میں کیا اور جدید سرمایہ دارانہ معاشرت کو اس کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا۔ ذیل کے اقتباس میں سرمایہ دارانہ معاشرہ کی بابت ڈرکہائیم کے خیالات نہایت واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔

AIOU Solved Assignment 2 Code 411 Autumn 2024

ANS 02

جب ظالم درخت کی ایک شاخ کو کاٹتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے اُس کٹی ہوئی شاخ کی جگہ سے کئی شاخیں نکلتی ہیں۔اور درخت اور تیز ی سے بڑھتا جاتا ہے جو لوگ اس معاشرہ میں حقیقت کو نا پسند کرتے ہیں  اور اسے ایک جرم تصور کرتے ہیں۔تو پھرایک لمحہ وہ آتا ہے جب مظلوم اور ظالم کی چکی میں پسے ہوئے لوگ نا انصافی  افلاس  جبر اور تشدد کے خلاف جو کہ ان کی نسلوں پر کیا جارہا ہے۔کھیتوں کھلیانوں میں اگنے والی فصل کو بچانے کے لیے ہر ظلم اور تشدد کے خلاف بر سر پیکارہو جاتے ہیں۔کارخانے بند ہو جائیں اور نئے نہ لگائے جائیں تو بیروز گاری بڑھتی ہے۔ بیروز گاری کے سبب جرائم بڑ ھتے ہیں ۔بداخلاقی بڑھتی ہے تہذ یب و تمدن کا نام ونشان مٹنا شروع ہو جاتاہے۔ اسکے بر عکس اگر کارخانے چلیں گے اور نئے     لگا ئے جا ئیں گے تو پیداوار بڑھے گی ۔ زمیند ار کو اُس کی فصل کا اچھا ریٹ ملے گا ۔ بیروز گاری ختم ہو گی تو معیارتعلیم بڑھے گا صحت کا گراف بلند ہوگا ۔ جرائم میںواضع کمی ہوگی۔یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب  صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر جرم اورظالم  کے خلاف آواز اُٹھانا جر م ہے اگر اپنی اور دیس کے باسیو ں کی حفاظت کرنا جرم ہے اگر اپنی اپنے لخت جگروں مائو ں بہنو ں  بیٹیوں کی عزت بچانا جرم ہے ۔اپنے شہروں گائوں اور اپنے کھیتوںکی سہنری بالیو ں کی حفاظت کرنا جرم ہے تو زندہ رہنے کیلئے سانس لینا  اور زندہ رہنا بھی جرم ہے ۔ تو زندگیاں اجاڑ دو بستیاں نسیت و نابود کر دو ۔نئی دنیا آباد کرو اپنے قانون اور قائد ے کے مطابق ۔ لوگوں کی سوچیں بدل دو اپنے دھارے کے مطابق سب کچھ بدل دو  ۔

جب ظالم درخت کی ایک شاخ کو کاٹتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے اُس کٹی ہوئی شاخ کی جگہ سے کئی شاخیں نکلتی ہیں۔اور درخت اور تیز ی سے بڑھتا جاتا ہے جو لوگ اس معاشرہ میں حقیقت کو نا پسند کرتے ہیں  اور اسے ایک جرم تصور کرتے ہیں۔تو پھرایک لمحہ وہ آتا ہے جب مظلوم اور ظالم کی چکی میں پسے ہوئے لوگ نا انصافی  افلاس  جبر اور تشدد کے خلاف جو کہ ان کی نسلوں پر کیا جارہا ہے۔کھیتوں کھلیانوں میں اگنے والی فصل کو بچانے کے لیے ہر ظلم اور تشدد کے خلاف بر سر پیکارہو جاتے ہیں۔کارخانے بند ہو جائیں اور نئے نہ لگائے جائیں تو بیروز گاری بڑھتی ہے۔ بیروز گاری کے سبب جرائم بڑ ھتے ہیں ۔بداخلاقی بڑھتی ہے تہذ یب و تمدن کا نام ونشان مٹنا شروع ہو جاتاہے۔ اسکے بر عکس اگر کارخانے چلیں گے اور نئے     لگا ئے جا ئیں گے تو پیداوار بڑھے گی ۔ زمیند ار کو اُس کی فصل کا اچھا ریٹ ملے گا ۔ بیروز گاری ختم ہو گی تو معیارتعلیم بڑھے گا صحت کا گراف بلند ہوگا ۔ جرائم میںواضع کمی ہوگی۔یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب  صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر جرم اورظالم  کے خلاف آواز اُٹھانا جر م ہے اگر اپنی اور دیس کے باسیو ں کی حفاظت کرنا جرم ہے اگر اپنی اپنے لخت جگروں مائو ں بہنو ں  بیٹیوں کی عزت بچانا جرم ہے ۔اپنے شہروں گائوں اور اپنے کھیتوںکی سہنری بالیو ں کی حفاظت کرنا جرم ہے تو زندہ رہنے کیلئے سانس لینا  اور زندہ رہنا بھی جرم ہے ۔ تو زندگیاں اجاڑ دو بستیاں نسیت و نابود کر دو ۔نئی دنیا آباد کرو اپنے قانون اور قائد ے کے مطابق ۔ لوگوں کی سوچیں بدل دو اپنے دھارے کے مطابق سب کچھ بدل دو  ۔

پنجاب بھرمیں کورونا وائرس کے کیسز میں بڑھنے لگے

کیوں کہ اس نظام میں تو یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔والدین دکھ اور تکالیف کاٹ کر اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر کولہو کے بیل کی طر ح دن رات کام کر کے ۔ اپنی جوانیو ں کو بڑھاپے میںڈال کر سیاہ بالوں کو سفیدی میں بدل کر ہشا ش بشاس چہروں کو مر جھائے ہوئے چہروں میں بدل کر۔اپنے بچوں کو  اس امیدپر    پڑ ھا کر انجینئر  ڈاکٹر  فارماسسٹ کی ڈگریاں حاصل کرواتے ہیں کہ بچے یہ ڈگر یاں لے کر اچھے انسان بن جا ئیں گے اور برسرروزگارہوجائیں گے۔ہماری زند گی کے بقایا ایام سکھ سے گزر جائیں گے۔لیکن اُن کی کمر اُس وقت بل کھا جاتی ہے۔ چہرہ مزید مر جھا جاتا ہے۔جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُسکا بچہ ہا تھو ں میں ڈگریاںلیے نوکری کی تلاش میں ہردروازے پر دستک دے رھاہے اور نا اُ مید مرجھائے ہو ئے چہرے کے ساتھ نا کام اپنے گھرلوٹ رہا ہے ۔والدین بہن بھائی جن کا اُس نے آسرا بننا تھا وہ نہیں بن پارہا ۔نوکری نہیں مل رہی وہ غریب ماں باپ کا بیٹا ہے۔ رشوت کیلئے  اُس کے پاس کچھ نہیں۔          کسی منسٹر ایم پی اے   ایم این اے  کی سفارش یا رشتہ داری نہیںنہ ہی اُ سکی پشت پر کوئی  تکراں سفارش ہے۔جب یہ بچہ ڈاکو بنے گا ۔لیٹرا بنے گا یا پھر اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کریگا۔ تو اس کا کنبہ تو برباد ہوگا ہی لیکن سوچو روز محشر اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہو گا۔رب سے فریاد کر رہا ہوگا ۔ یہ ہیںوہ حاکم جن کی وجہ سے میں ڈاکو بنا کیو ں کہ میں اپنے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو بھو ک کے ہاتھوں مرتا ہو ا ۔بے سروسامانی کی حالت میں نہ دیکھ سکا موت کو اپنے ہا تھوں اس لیئے گلے لگایا کہ میں ڈاکو بن نہیںسکتا تھا ۔ بزدل تھا کسی پر ظلم نہیں کر سکتا تھا ۔ اور میں نے بہتر سمجھا کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لو ں چوکوں اور سٹرک کنارے پڑے ہوئے اُ ن نوجوانوںکو دیکھ کر میں پہر وں سوچتا ہوں۔ اور خون کے آنسو روتا ہوں کہ کہ ان کی جوانیوں کو برباد کس نے کیا  ۔مر جا ئیں تو اعلان کر دیا جا تا ہے کہ نشی تھا مر گیا لاش اُٹھا کر ہسپتالوں میں سردخانوں میں ڈال دی جاتی ہے۔اور وہ نشئی تو مرکے بھی امر ہوگیا ۔ میڈیکل کالج کے کتنے طلبا ء نے اُس کی لاش سے کیا کچھ نہ کیا ہو گا ۔ اُس کی لاش پر کتنے سبق پڑھے ہوں گے۔ لیکن ہا ئے صد افسوس کبھی کسی نے نہ سوچا کہ اس حالت تک اُسے کس نے  پہنچایا۔اس حالت تک اُسے پہنچا نے والوں پر کسی نے مضبوط ہاتھ نہ ڈالا ۔یہ کبھی ایک سوال بہت سارے دانشور یہ کہہ رہے ہیں کہ زانی کو  سزائے موت نہ دو کیو ں کہ مغربی معاشرہ اسے قبول نہ کرے گا ۔ کیا مغربی معاشرے میں یہ نہیں ہورہا مساجد کو شہیدکیا جارہاہے مسلمانوں کاقتل عام کیا جارہاہے یہودیوں کو مسلط کیا جارہاہے ۔ کیا مغربی معاشرہ آپکے اور اسلام کے حق میں ہے۔ شام  عراق  لیبیا    لبنان  فلسطین  کشمیر  افغانستان کے  مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہاہے۔

اسلام کے اپنے قوانین میں قتل میں ورثاء قصاص لے کر قاتل کو معاف کر سکتے ہیں۔ لیکن  زانی کی سزا بذریعہ سنگسار مو ت ہے۔چو ر اور ڈاکو کی سزا ہاتھ کا ٹنا ۔شرابی کی سزا کوڑے ہیں ۔ ان جرائم میں کوئی معافی نہیں آپ نے اپنے رب کے دین کو دیکھنا ہے۔ اور مدینہ کی ریاست میں یہ سب کچھ تھایا  مغربی معاشرے میں ہے ۔ یہ  مغربی معاشرہ ہی ہے جس نے ہم مسلمانوں کو برباد  کر دیا ذلت اور رسوائی بے حیائی  کے گھڑے  میں دھکیل دیا  ہمیں  اگر اپنے  ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنا ناہے تو نبی پاکﷺ کی زندگی اور صحابہ کرام کی تعلیم پر عمل کرنا ہوگا۔ قر آن پاک ہمارے پاس سب سے بڑ ی قانون کی کتاب ہے اس سے راہنمائی لینا ہو گی ۔ قیامت والے دن یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تمہارا تعلق کس سیاسی جما عت سے ہے ۔

ان تما م جر ائم کی سزا سر عام ہو جیسا کہ نبی پاک کے دورمیں ہوتی تھی ۔معا فی کا حق صرف ورثا ء کو ہو۔ چند ایک نقاط تحریر کر رہا ہوں انکی سزا اسلامی قوانین کے مطابق دی جائے جو کہ ریاست مدینہ میں دی جاتی تھی ۔اسلامی سزائو ں میں تر میم کا حق کسی شخص کو نہیں ۔

قتل کی سزا  سزائے موت ہواور معافی کا حق ورثہ کو ہو ۔منشیات فروشی اور منشیات کی تیاری ۔زنا با لجبر یا زنا بل رضا چاہے خواتین سے ہو یا بچے  بچیوں سے ۔ڈاکہ زنی اغوا  برائے تاوان۔  ملاوٹ۔ رشوت خوری ۔دہشت گردی ۔ وطن سے غداری  کے مرتکب کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔  بڑی جائید ادیں لے کر چھوٹے یو نٹ بنا  دیے جائیں۔غیر آباد سرکاری اراضی آباد کاری کے لیے  غریب ہا ریو ں کو دے دی جائے۔ معیار تعلیم یکساں کر دیا جائے ۔رہائش تعلیم اور صحت بذمہ حکومت ہو تومعاشرتی تبدیلی کے کچھ امکان پیدا ہوسکتے ہیں۔

AIOU Solved Assignment Code 411 Autumn 2024

ANS 03

لغت۔اہل لغات نے تربیت کے معنی پالنا ،تربیت کرنا اور کسی کو تدریجاً نشو ونما دے کرکے حد ِکمال تک پہنچانا ہے اور تربیت مادہ ربّ سے نکلاہے اہل لغات نے بہت سے معانی ذکر کیئے ہیں ان میں سے بعض جیسے برتری ،سردار ،مالک،سیاستدان، اصلاح کرنے والا اور تربیت کرنے والا۔

اصطلاح ۔اہل عرف وعقلاء کی اصطلاح میں تربیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔

تربیت۔١ ،یعنی انسان کی پوشیدہ اور چھپی ہوئی صلاحیتوں کی تربیت کرنا ،

تربیت۔٢ :انسان کو پستی سے نکال کر بلندی اور تکامل کی راہ پر گامزن کرنے اور اسے آگے بڑھانا،میں جن صفات کی ضرورت ہو ان کی دیکھ بھال کرکے صحیح پروان چڑھانے کا نام تربیت ہے ۔

تربیت٣۔ یعنی کسی کے اندر مناسب رفتار پیدا کرنے اور اس کو اچھے ہدف تک پہنچانے اور اس کی استعداد کو اجاگر کرنے کیلے کمالات کی طرف حرکت دینے کا نام تربیت ہے

تربیت٤۔تربیت میں کسی چیز کو وجود میں نہیں لایا جاتا بلکہ تربیت میں ان موجود صفات کی پرورش کی جاتی ہے جیسے مالی اور باغبان اپنے باغ میں پودوں اور پھولوں کی اچھی طریقے سے دیکھ بھال کرتاہے اور باغ کے ہر ایک پھول ور پودے کی پرورش کرتاہے اور انہیں مختلف موذی امراض سے بچانے کی کوشش کرتارہتاہے تاکہ اس سے اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرے ۔

تربیت ٥۔ ہمارے استاد معظم قبلہ سید حسین مرتضی نقوی صاحب حفظہ اللہ کے الفاظ میں تربیت کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کانام ہے جو اسے بلند انسانی مرتبوں تک پہنچاسکے بہرحال تربیت کا عنوان اور موضوع انسان ہے کہ عام انسانوں کو کیا کرنا چاہے؟ہر انسان کو دوسرے انسان یا اگر اس میں لیاقت اور استعداد ہو تو اپنی اور دوسری قوموں اور گروہوں کی تربیت کرنا چائیے جیسے خدا تعالی کا حکم ہے:( یا ایہا الذین امنوا قوا انفسکم واہلیکم ناراً )(١) تم اپنی بھی تربیت کرو تاکہ ذلت وپستی اور جہنم میںجانے کی بجائے انسان بلند مرتبوں تک پہنچو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی بھی تربیت کرو اور ان کو بھی پستی ،ذلت اور جہنم کی آ گ سے بچائو گویا اس آیت کا لہجہ یہ بتلارہاہے کہ تربیت ایک امر واجب اور ضروری ہے کیونکہ ذلت ،پستی اور جہنم سے بچنے اور کمالات کی طرف بڑھنے کیلے تربیت ضروری ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان اپنی فردی اور اجتماعی ذمہ داری کو انجام دے اور دوسروں کے حقوق کو پائمال نہ کرے اور نہ ہی تجاوز کرے۔

حضرت امام جعفر صادق سے ابو بصیر نے اس آیت مذکورہ کے ضمن میں عرض کیا ،میں ان کو (اہل وعیال اوردوسرے لوگوں کو ) کیسے بچائوں ؟ امام نے فرمایا امر خدا کا حکم دو اور نہی خدا سے روکو اگر تمہاری اطاعت کی تو تم انہیں جہنم سے بچالیا ہے اور اگر نافرمانی کی تو تم نے اپنا فریضہ ادا کیا امام کے اس فرمان سے معلوم ہوتاہے کہ تربیت فرائض میں سے ایک فرض اور واجب ہے اوراسی طرح ایک آیہ مجیدہ کی تفسیر میں تربیت کے مفہوم کو امام مزید واضح

فرماتے ہیں (ومن احیا ھا فکانما احیا الناس ).(٢) جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا انسانوں کو زندہ کیا امام جعفر صادق اس آیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: کہ زندہ کرنے سے مراد ظاہری حیات وزندگی نہیں ہے بلکہ یہاں زندہ کرنے سے مراد تربیت ِانسان ہے ایک مردہ انسان کو زندہ کرنے کا مقصد اسے گمراہی سے ہدایت کی طرف لے آنا اور اس کی تربیت کرنا، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے انبیائ کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور ھدایت قرار دیا ہے، (کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلواعلیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم ا لکتاب والحکمة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون).(٣) ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتاہے اور تمہیں پاکیزہ کرتاہے اور تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتاہے جو تم نہیں جانتے ایک اور جگہ انبیاء علیہم السلام کی خدمات کو اللہ تعالی نے تربیت کے نام پر یاد فرمایا:

(ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایاتک ویعلمھم الکتاب والحکمة ویزکیہم انک انت العزیز الحکیم).( ٤)

اے ہمارے رب !ان میں ایک رسول بھیج جو انہیں آیات سنائے اور کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور انہیں ہر قسم کی پستی اور ذلت سے نکال کر پاک کرے اور بیشک تو تو غالب و صاحب حکمت ہے اس لئیے اللہ تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ١٤ چہاردہ معصوم ہستیوں کو انسان کی تربیت کیلے بھیجا تاکہ انسان کو اس تربیت کے ذریعہ پستی سے نکال کر کمال تک پہنچائے اسی وجہ سے اللہ تعالی نے سورہ مائدہ کی آیت ٣٢ میں ایک انسان کی تربیت اور ہدایت کو تمام انسانوں کی تربیت وہدایت سے تعبیر فرمایا:( من احیاھا فکا نما احیا الناس جمیعاً).

شاید یہی وجہ تھی کہ انبیاء اور اولیاء الھی کی سب سے بڑی ذمہ داری تعلیم وتربیت تھی ۔

اور اللہ کا مومنین پر احسان ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت کیلے ان کی طرف رسول بھیجے جیسے اس آیت میں ارشاد رب العزت ہے :

(لقد من اللہ علی المومنین اذبعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم ،لکتاب والحکمة وان کانو ا من قبل لفی ضلال مبین ).(5)

ایمان والوں پر اللہ نے احسان کیا کہ ان کے پاس ایک رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے جو انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور ان کا تزکیہ نفس کرتاہے اگرچہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی اور پستی میں تھے ایک اور آیت میں تعلیم وتربیت کو انسانوں کیلے مایہ حیات قرار دیا ہے :اور وہ لوگ جنہیں انبیا ء الہی کی تعلیم وتربیت حاصل نہیں ہوئی انہیں مردہ قرار دیاہے:

( یا ایہا الذین امنوا استجیبوا للہ ولرسولہ اذا دعاکم لما یحییکم )

اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات افرینش باتوں کی طرف دعوت دیں ان مزکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی تربیت کیلے کتنا بڑا انتظام کیا کہ رسول بھیجے امام بھیجے یہاں تک کہ انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ایک انسان کی تربیت کیلے خدا نے کتنا بڑا انتظام کیا کہ اپنی طرف سے انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف افراد کو اس ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے کبھی رسول ِظاہری اور کبھی رسول ِ باطنی جیسی نعمت دے کر تربیت فرمائی اور کبھی والدین کو تربیت کیلے مسئو لیت دے دی۔

کہ ایک حد تک والدین تربیت کریں اور اللہ تعالی نے اپنے رسول وامام کے ذریعہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ تم اپنی تربیت کرو اور لوگوں کی بھی تربیت کرو اور ان کو ذلت وپستی اور جہنم کی آگ سے بچائو ۔سورہ تحریم آیت ٦ میں سختی سے تربیت کی طرف متوجہ کیا اور پھر پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ تربیت میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اگر رشتہ دار ہیں تو بھی اس تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اگر علماء اور دانشمند ہیں تو وہ بھی معاشرے کے تمام انداز کی تربیت کریں اور لوگوں کو انحراف اور ذلت وپستی سے نکالیں اور معاشرے کی مشکلات کو حل کریں اور اگر اساتید ہیں تو بھی فقط ایک کورس اور کتابوں کے نصاب کی حد تک محدود نہ رہیں بلکہ وہ بھی اس تربیت ِانسانی میں مسئول ہیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کریں اور اگر حکومت اسلامی ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں ایسے امور اور قوانین لاگو کرے کہ جس کے ذریعہ معاشرے کے تمام آفراد تربیت یافتہ اور مہذب بن سکیں اور خود معاشرے کے ہر فرد کی بھی یہی ذمہ داری ہے۔

کہ تربیت کے اصول وضوابط کی پابندی کریں تاکہ تربیت کے امور کو دوسرے لوگ اپنے لیے ایک نمونہ اور الگو سمجھیں اور اسی طرح جب ہر فرد اپنے عہدے کو پابندی سے پورا کرے گا تو اس سے کئی معاشرے اور ملک تربیت کی شاہراہ پر چل پڑیں گے اور اس اہم تربیت سے سب لوگ استفادہ کریں گے اور اس عظیم فریضے کو پورا کرسکیں گے کیونکہ ایک اچھے معاشرے کی کامیابی اور اس کی ترقی کا راز اچھی تربیت اور پرورش میں پوشیدہ ہے پیغمبر اسلام ۖجنہوںنےاپنیمبارکزندگیکوانسانسازیاورگمراہانسانوںکیہدایتاورتربیتمیںگزاریاوراپنیبعثتکےفلسفےاورہدفکویوںبیانفرمایا:( انمابعثتلاتمممکارمالاخلاق) .(6 )

اسلام کی ترقی میں رسول اکرم ۖکےحسنِاخلاقکوزیادہ دخل ہے کیونکہ خدا وند عالم اسلام کی وسعت وبلندی کی نسبت اخلاق ِپیغمبر ۖکیطرفدیتاہے :

(ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفظوا من حولک) (7 )

اے پیغمبر ۖاگرتمبدمزاجوسختدلہوتےتولوگتمسےدورہوجاتےاورمنتشرہوجاتےپیغمبراسلامانسانکیتربیتکےپہلےمعلم تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسان کی تربیت میں گزاری ۔

ایک مرتبہ رسولۖاسلاماپنےاصحابکےساتھایکگلیسےگزررہےتھےاسگلیمیںچھوٹےچھوٹےبچےکھیلرہےتھےآپنےبچوںکودیکھااورٹھنڈیسانسبھرکرکہااللہاکبر،اصحابنےجبرسولخداکےچہرےپرغمکےاثرات دیکھے تو آپ سے عرض کی یا رسول اللہ کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ ہائے آخری زمانے کے بچے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ اپنی اولاد کے کھانے پینے رہنے سہنے کی فکر کی حد تک زیادہ توجہ کریںگے لیکن آخرت کے بارے بالکل بے فکر ہوں گے یہ ہماری تربیت اور اولاد کی تربیت انہیں یاد آرہی تھی اور ان کے غم کا باعث بن رہی تھی یا خود امام حسین سے پوچھا گیا کہ آپ کربلا میں کیوں جارہے ہیںامام حسین نے جواب دیا کہ:

(بل خرجت لاصلاح امت جدی ) .(8 )

میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے مدینے سے کربلا جارہا ہوں :(ارید ان امر بالمعروف والنھی عن المنکر)

امام نے فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ لو گوں کو اچھے امور کی تربیت کروں اور برے کاموں سے روکوں تربیت ِانسانی میں پیغمبر اسلام اور ان کی آل ِاطہار کو کتنا فکر دامن گیر تھی اللہ نے پیغمبر اسلام کو انسان کی تربیت کیلے اسوہ حسنہ کا پیکر بنا کر مبعوث فرمایا:

( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة)(9) در حقیقت تم لوگوں کیلے اللہ نے رسول کو بہترین نمونہ بنایا تھا ۔

حضرت نبی اکرم ۖاسدنیامیںلوگوںکیلئےایکمثالینمونہبنکرتشریفلائےتھےاورآنحضرتۖاپنےعملسےانسانوںکیہدایتوتربیتفرمائیاور آپ کی تربیت سے دنیا میں ایک مثالی امت برپا ہوئی جس کے بارے میں خدا فرماتاہے :

(کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ) (10)

اسلام کی نظر میں نمونہ عمل تربیت کا بہترین ذریعہ ہے اور اسلام نے اس اصول کو کہ تربیت دے کر جس قسم کے افراد تیار کرنے ہیں ان کے سامنے اس کو مثالی نمونہ وعملی پیکر بن کر رہیں جس طرح امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

(کونوا دعاة الناس بغیر الالسنتکم ) (11)کہ لوگوں کو اپنے عمل کے ذریعہ دعوت دو۔

تربیت کی اقسام 

(١) فلسفہ تربیت (٢) فردی تربیت (٣) اجتماعی تربیت (٤) جسمانی تربیت (٥)روحانی تربیت

(٦) معاشرتی تربیت (٧) جغرافیائی تربیت (٨) تربیت اور حقوق (٩) سیاست اور تربیت

مذکورہ بالااقسامِ تربیت کے علاوہ اور بھی اقسا م ہیں لیکن مشہور ومعروف اقسام ِتربیت یہی ہیں اوران میں سے ہرایک کی مختصر تشریح کرتے ہیں۔

١۔ فلسفہ تربیت

فلسفہ تربیت میں اصل موضوع انسان کی ذات ہے کہ آیا انسان کی تربیت کا کوئی مقصد ہے یا نہیں پھر انسان اورمربی کے درمیان کو نسا رابطہ ہے؟ مربی کی تربیت میں کونسی باتیںاصول ِتربیت کے عنوان سے مد نظر ہیں ؟پھر انسان کی تربیت سے پہلے خود انسان کیا ہے اور کیسے دنیا میں آیا ہے اور کس طرح انسان کی تربیت کریں؟

٢۔ فردی تربیت

ایک فرد کی تربیت معاشرے کی تربیت کا سبب بنتی ہے۔ اگر ہر فرد تربیت یافتہ ہوگا تو اس سے ایک معاشرہ تشکیل پائے گا۔ اگر فردی تربیت نہ ہوگی تو معاشرے کا فرد قرار نہیں پائے گا اور پھر فردی تربیت میںماں باپ کی طرز فکر کو دیکھا جاتاہے کہ جس طرح کے وہ لوگ عقائد رکھتے ہونگے اسی طرح اس کی تربیت کریںگے۔

٣۔ اجتماعی تربیت

اجتماعی تربیت جیسے استاد وشاگرداور مدرسہ واسکول کی تربیت کہ کس طرح کامعلم ہو تو تربیت پانے والے افرادکو کیاکرنا چاہیے،اسکول کا اثر تربیت اجتماعی طور پرکیا ہوتاہے اور اجتماعی تربیت میں کونسی چیزوں کی رعایت کرنی چاہیے اور اجتماعی تربیت کی کیا قدروقیمت ہے؟ ۔بہر حال اور بہت سے امور میں بحث ہوگی کہ اجتماعی تربیت مختلف افراد اور مختلف قومیںاور استعداد وغیرہ، مورد بحث ہیں۔

٤۔جسمانی تربیت

کہ ورزش کے لیے مثلاًاعضاء صحیح وسالم ہونے چاہیں یا اعضائے جسمانی اور اعصاب اور گوشت و پوست وغیرہ کی کیسے تربیت کی جائے ؟۔ انھیں کیسا رکھا جائے ؟،غذا کونسی ہونی چائیے؟ عقل و ہوش کیساہو؟ حواس ظاہری خمسہ کی تربیت اورحافظہ و شعور کی تربیت، پھر جسمانی تربیت میں طاقت وکمزوری وغیرہ سے بحث ہوگی اور مختلف حالات سے بحث مثلاًجسم کے لیے کونسی چیز یںمضر ہیں اورکونسی چیزیں مفید ہیں۔

٥۔روحانی تربیت

روحانی تربیت کے متعلق پہلے کافی گفتگو ہو چکی ہے کہ جس طرح جسم کے لیے غذا و لباس کی ضروت ہے ۔اسی طرح روح کی ضرورت کوبھی مدنظر رکھ کر اسے اس کی ضروریات فراہم کی جائیں۔

٦۔معاشرتی تربیت

کہ ایک انسان معاشرے میں کس طرح زندگی گزارے اور کس طرح معاشرے کی ذمہ داری کو نبھاے ۔

٧۔ جغرافیائی تربیت

جغرافیائی تربیت میںمختلف جہت سے گفتگو ہوگی کہ ہر ملک وشہر کی آب وہوا کیسی ہے ؟۔اور تربیت پر اسکے کیا اثرات مر تب ہوتے ہیں ؟ ہر ملک وشہر کا جغرافیہ مختلف ہے ۔پہلے اس کے بارے میںجاننا ضروری ہے ۔پھر تربیت کو اس کی جغرافیائی انداز سے پیش کیا جاسکتاہے۔

٨۔تربیت اور حقوق

تربیت اور حقوق کے لحاظ سے کافی مفصل بحث ہے کہ والدین کے حقوق کیا ہیں، اولاد کے حقوق اور پھر ایک مربی کے حقوق اور اساتذہ کے حقوق، شاگردوں کے حقوق پھر ایک علاقے کے دوسرے علاقے پر حقوق اور پھر ایک شہر کے دوسرے شہر وں پر حقوق اور ایک ملک کے دوسرے ممالک پر کون سے حقوق ہیں ۔ اس تربیت میں اگر ان حقوق کو بیان کیا جائے تو ایک علیحدہ کی کتاب ضرورت ہے۔

کیونکہ اگر مختلف حقوق اور تربیت میں فقط والدین اور اولاد کے حقوق پر اجمالاًبحث کی جائے اور وہ بھی احادیث کی رو سے ورنہ آیات اور احادیث کو ہی اگر جمع کریں تو پھر ایک مفصل کتاب کی شکل میں ہو سکتاہے کہ بیان کیاجائے۔

٩۔سیاست اور تربیت

اس موضوع میں بھی کافی بحث ہے کہ سیاسی لوگوں نے تربیت پر کتنی توجہ کی بادشاہوں نے رعایہ کی تربیت پر کیسے خرچ کیایاکررہے ہیں یا ان کے کچھ اور مقاصدہیں اور پھر ہر زمانے میں ہر ملک اور اس کے سیاسی افراد نے تربیت پر کتنا زور دیا اور دیتے رہے ہیں یا آج کل ہر ملک اور اس کے سیاسی افراد تربیت پر توجہ دے رہے ہیں ۔اور ان لوگوں پر تربیت کے لحاظ سے کتنا حق ہے اور تربیت میں وہ مخصوص کردار کے حامل ہیں اور انھیں اس تربیت پر کیا کرنا چاہیے۔

مثلاًہر ملک وشہر میں اسکول و کالج ہیں ، مساجد و مدارس ہیں آیا ان مدار س وکالجوں کے ذریعہ تربیت کا حق ادا ہو رہاہے ، یا فقط ان میں سیاسی اہداف کو پورا کیا جارہاہے ۔ بہر حال کافی طولانی موضوع ہے ۔اس پر ہرملک وملت کے احوال سے واقف ہو کرکچھ کہا جاسکتاہے اور پھر وقت بھی ہو کہ جس میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی جائے۔

استعدادِ تربیت 

١۔ غرائض۔٢ فطرت۔ ٣ استعدادِ اندرونی۔ ٤ الہام۔ ٥۔علم وآگاہی ۔٦۔ سعادت طلبی ۔٧ ۔ قدرت وتوانائی۔٨ ۔عقل ۔مذکورہ بالا امور تربیت کے وہ عوامل ہیں جو ہر انسان میں پائے جاتے ہیں اور ہر انسان میں یہ استعدادہے کہ وہ مذکورہ عوامل کو پالے اور تربیت سے بہرہ مند ہو بر حال ان عوامل کی مختصر وضاحت کرتے ہیں تاکہ تربیت کے موضوع کو کسی حد تک واضح کرسکیں انسان اور حیوان میں تربیت کے لحاظ سے کافی فرق ہے اگرچہ کچھ جانوروں کی تربیت کی جاتی ہے اور ان پر بھی تربیت کا نام صادق آتاہے لیکن تربیت کی استداد انسان میں زیادہ ہے۔

١۔ غرائض

غرائض سے مراد انسان کی جسمانی خواہشات اور آرزوئیں ہیں کہ جو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں کسی میں زیادہ کسی میں کم بہرحال خواہش ِنفس کا تو کوئی انکارنہیںکرسکتالیکن خواہشات کو اپنانے اور اپنی مرضی سے حیوان کی طرح بعض امور کو انجام دینا وغیرہ میں اختلافِ نظر ہے باوجود اس خواہش اندرونی کے انسان میں صلاحیت وقدرت ہے کہ وہ منشائے الٰہی کے تحت تربیت پائے اوریہ استعداد وقدرت انسان کی ذاتی خواہش کی حد تک تربیت میں معاون بھی بنتی ہیں مثلاً کھانا پیناوغیرہ اور محبت ونفرت دشمنی ودوستی جیسے امور کو انسان کی ذاتی غرض کہا جاتاہے ۔

٢۔ فطرت

انسان میں ایک فطرت ہے اس سے مراد اس کی طبعی تخلیق مراد ہے کہ وہ طبعاً فطرتِ انسانی پر پیدا ہواہے اور اس میں تربیتِ استعداد فطری امر ہے کیونکہ استعداد ایک فطری امر ہے اور اس کے بارے میں پہلے چند آیات زکر کی ہیں ،کتاب کے حجم کو دیکھتے ہوئے فقط اشارہ کرنا کافی ہے مثلاً انسان فطرتاً سچائی کو دوست رکھتاہے جھوٹ سے فطرتاً پرہیز کرتاہے امانت کی حفاظت کرتاہے اور دوسرے فطری امور وغیرہ ۔

٣۔صلاحیت اندرونی

انسان کے اندر بہت سی چھپی ہوئی صلاحیتیں ،موجود ہیں جو نشو ونما اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بعض کو خود ظاہر کرنا پڑتاہے مثلاً انسان میں گفتگو کرنے کی استعداد ہے لیکن اس کیلئے گفتگو کے طریقے مثلاً کہ بڑوں کے سامنے کیسے گفتگو کی جائے اور استاد کے سامنے کیسے بات کی جائے وغیرہ جیسی ضروریات کو تربیت کے ذریعہ ہی انجام دیا جاسکتاہے ورنہ بولنا ،رونا ،ہنسنا وغیرہ یہ ایسے اندرونی استعدادی امور ہیں کہ جن کو وہ روزمرہ کی زندگی میں انجام دیا جاتاہے لیکن تربیت استعدادی امور کو ان کے محل وموقع کی مناسبت سے ہی استعمال کرنا سکھاتی ہے اور تربیت کرنے کیلے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا اور استعمال میں لانے کیلئے ایک منجھے ہوئے مربی کی ضرورت ہے تاکہ وہ تربیت پانے والے افراد کی چھپی ہوئی صلاحیتوں میں دخل اندازی کرے اور ان کی اس استعدادی قوت کو استعمال میں لائے۔

٤۔ الہام

انسان میں بعض ایسی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ جن کا پہلے سے علم نہیں ہوتا لیکن انسان ان سے اچانک آگاہی حاصل کرتاہے قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہواہے۔

( ونفس وما سوھا فا لھمھا فجورھا وتقوھا )(12)

سورہ شمس کہ اس میں الہام نیکی اور برائی کی صلاحیت ہے لہٰذا تربیت میں یہ بھی عوامل پایا جاتاہے کہ بعض انسانوں کو تربیتی امور میں نیکیوں کا الہام ہوتاہے اور بعض کو برائی کی طرف البتہ نیکیوں کا الہام خدا کی طرف سے اور برائیوں کا الہام شیطانی وسوسوں سے ہوتاہے ۔

٥۔ علم وآگاہی

انسان میں علم حاصل کرنے کی استعداد موجود ہے اور انسان کسی چیز کو اگر سونگھ لے تو اس سے اس کے علم میں

اضافہ ہوگا کہ یہ خوش بودار چیز ہے یا بد بودار چیز یا یہ کون سے پھول کی خوش بو ہے اسی طرح اگر کسی چیز کو چھو لے اگر اس سے سردی وگرمی کا احساس ہو تو اس کے علم میں اضافے کا سبب بنے گی اسی طرح کسی چیز سے جاہل ہو تو تو اس سے علم حاصل کرنے کی استعداد وقوت ہر انسان میں ہے برحال خلاصہ یہ ہے کہ تربیت کیلے علم جیسی استعداد انسان میں موجود ہے ۔

٦۔سعادت طلبی

انسان فطرتاً سعادت کا خواہاں ہے اور اس میں سعادت طلب کرنے کی استعداد موجود ہے لہذا تربیت سے بہرہ مند ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو اس دنیا میں سعید وخوش بخت بناسکتا ہے اور سعادت یا دنیا کی ہو گی یا آخرت کی یا اپنی ذات کی سعادت کو طلب کرنا چاہتا ہے یا دوسروں کی سعادت کی فکر کرتاہے کہ جس طرح انبیاء کرام ومعصومین نے سب کی سعادت کو مد نظر رکھ کر زحمتیں اٹھائیں۔

٧۔ قدرت وتوانائی

تربیت کو اگے بڑھانے کیلے جس کی تربیت کی جارہی ہے اس میں قدرت وتوانائی ہونی چاہئیے کہ اور یہ فطری بات ہے کہ خدا نے انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے اور اس میں یہ قدرت ہے کہ وہ تربیت کے زرین اصولوں پر عمل کرکے اپنی استعداد بڑھا سکتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ خدا کی ساری مخلوق میں قدرت وتوانائی اس کی اپنی حیثیت کے مطابق پائی جاتی ہے مثلاً جمادات میں دیکھیں نمو پایاجاتاہے نباتات میں بھی ہے حیوانات میں بھی ہے اور انسان میں بدرجہ اتم (پورے طورپر) موجود ہے

٨۔عقل وفکر

عقل وفکر بھی استعداد تربیت کے عوامل میں سے ایک ہے اور حیوان وانسان کے درمیان بڑا فرق عقل کی وجہ سے ہے کہ انسان مکلف ہے تو عقل کی وجہ پھر اگر عقل نہ ہوگی تو تربیت کیسے ہوسکے گی اسلام کے سب احکام پر عمل کرنا عقل کی وجہ سے ہے جو عقل نہیں رکھتا اس پر کوئی تکلیف نہیں لہذا عقل تربیت کی استعداد بڑھانے میں سے ایک عامل ہے اس کے علاوہ دوسرے عوامل مثلاً اختیار وتقلید ،تجربہ ،حافظہ وآزادی احساس ووعظ ونصیحت کہ جن کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے یہ سب تربیت کے عوامل میں سے ہیں خدا ہمیں یہ قوت وطاقت دے کہ ہم اپنی اور اپنی اولاد و معاشرے کی تربیت کرسکیں

AIOU Solved Assignment Code 411 Autumn 2024

ANS 04

نسائیت اور لوک ریت میں امسال کی تھیم نسائیت ہے۔ اس کے تحت خواتین کے سوانحی مضامین کو ترجیح دی جائے گی۔ جنسی تفریق کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے گی۔

فروری: دنیا بھر کی ثقافت، روایت بشمول علاقائی تہوار، رقص، موسیقی، ثقافتی سرگرمیاں، کھیل، پکوان، ڈراما اور کھیل، فنون لطیفہ، مذہب اور عقیدہ وغیرہ۔

اگر ہم کسی ملک کو جاننا، پہچاننا اور سمجھنا چاہتے ہوں تو ہمارے لیے اس کے ادب، تاریخ، فنون لطیفہ، آثار قدیمہ ، روایات ، رسم و رواج اور تہذ یب و شائستگی کا مطالعہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ان سب کو جان لینے کے بعد بھی کبھی کبھی ہم روح کے اضطراب اور دل کی دھڑکنوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں دکھاوا بھی بڑھتا جاتا ہے۔ ہم کچھ کہہ کر بہت کچھ چھپا سکنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے جب کبھی ہم ان پردوں کو ہٹا کر گہرائیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں عوامی ادب ہمارا ہاتھ بٹاتا ہے۔
لوک گیت ، لوک کہانیاں ، جن گان ، جن ناٹیہ ،لوک ناچ ،لوک کہاوتیں، یہ سب عام انسان کی سیدھی سادی زندگی کا ماجرا بیان کر تے ہیں۔ جن میں پیچیدہ فلسفے نہیں ، روشن حقیقتیں ہوتی ہیں۔ فن اور ہئیت کی بازیگری نہیں ، دل کو چھو لینے والی موہنی ہوتی ہے۔ وہ عوامی زندگی کے ترجمان بھی ہوتے ہیں اور انفرادی زندگی کے آئینہ دار بھی۔ ان میں مقامی رنگ بہت گہرا ہوتا ہے لیکن ان سب میں انسانیت کا دل دھڑکتا صاف سنائی دیتا ہے۔
لوک ساہتیہ ہر قوم کا بیش قیمت اور لافانی ورثہ ہوتا ہے جسے وہ ہمیشہ اپنے سینہ سے لگائے رکھتی ہے۔ وہ اگرچہ ضبط تحریر میں نہیں آتا لیکن عوام کے سینوں میں محفوظ رہتا ہے۔ ماں بیٹی کو، باپ بیٹے کو، پرانی نسل نئی نسل کو ورثے میں یہ سرمایہ دیتی آئی ہے اور اس طرح یہ ادب صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا ہے۔ ان کا مصنف کون ہے ، اس کا کس عہد سے تعلق ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔

لوک گیت اور ان کی فطری دھنیں کسی بھی قوم کے جذبات کا راست اور فطری اظہار ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ ان میں صناعی اورفن کاری سے زیادہ صداقت اور گرمئ حیات ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو اس سلسلے میں دیس دیس گھومے پھرے ہیں، کہتے ہیں کہ انسانی برادری کی یگانگت کو سمجھنا چاہو تو اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں کہ وہاں کے عوامی ادب سے واقفیت حاصل کرو۔ زبان و ادب جب قواعد کے بندھنوں سے بندھ جاتے ہیں تو ان میں تکلف در آ تا ہے۔ اسی لیے ایک ملک سے دوسرے ملک کا ادب الگ دکھائی دیتا ہے لیکن یہ عام خزانے فطرت سے اپنا ناطہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے زبانیں اور بولیاں الگ الگ ہونے کے باوجود ان میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں۔

ہندوستان ایک عظیم ملک ہے۔ اتر سے لے کر دکھن اور پورپ سے لے کر پچھم تک ہر جگہ رہنے والوں کے کھان پان کے طریقے جدا، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے کے آداب ، شادی بیاہ کے رسم و رواج الگ الگ ہیں۔ اس کے باوجود ان میں کچھ نہ کچھ رنگ مشترک بھی ہیں۔ اس فرق اور اشتراک کو اچھی طرح سمجھنا ہو تو جگہ جگہ گھومئے اور وہاں گائے جانے والے گیت سنیے۔
جاڑے کی راتوں میں الاؤ کے گر دگائی جانے والی سورماؤں کی کہانیاں، ہل چلاتے اور فصل کاٹتے ہوئے کسانوں کے گیت ، پنگھٹ پر جمع ہونے والی پنہارنوں کی چہل ، چرخہ کاتنے والی گرہستن کا گنگنانا، دھمش کرنے والے مزدوروں کی تھاپ، دھان کوٹنے والیوں کے بول، رات کے پچھلے پہر بیل گاڑی ہانکنے والوں کی تانیں، محرم کے الاوے، عورتوں کی زاریاں۔۔۔ پھر ڈھولک کے گیت ، جن میں پیدائش سے لے کر موت تک ، انسانی زندگی کا ہر رخ اور ہر موڑ جیتا جاگتا اپنے منہ آپ کہانی سناتا ہے۔
ان میں بدلتی ہوئی رتوں کی خوشبو، آنگن کے پیڑ پر بولنے والی کوئل ، چھپ کر منڈیر پر کائیں کائیں کرتا کوا۔۔۔ ساس ، نند ، دیورانی ، جٹھانی کی شکایتیں ، گلے شکوے، میکے کی یاد۔۔۔ غرض ہر پسند ناپسند ، درد و غم، نفرت و محبت ، چھوٹی چھوٹی خواہشیں۔۔۔ سبھی کچھ موجود ہیں۔

ان میں ہیر پیچ کی باتیں نہیں ہوتیں۔ دکھاوا نہیں ہوتا۔ یہ تو کھرے، بھولے بھالے، دل کی آواز ہیں۔ ان میں اپنے پن کا رس ہے۔ مان ہے اور مصری کی ڈلی جیسی گہری مٹھاس ہے۔۔
انہیں ابھی شہروں کی تہذیب نے دل کی سچائی پر جھوٹ کا ملمع کرنا نہیں سکھایا، یہ کھری کھری باتیں اَن گڑھ، کھردری سہی مگر سچی ہیں۔ سچے موتی بھی تو سڈول نہیں ہوتے۔

یہ گیت جن سروں میں گائے جاتے ہیں، انہیں سیکھنے کے لیے برسوں کی ریاضت درکار نہیں، نہ خاص خاص سازوں کی احتیاج، موسل کی دھن دھم، چکی کی گھمر گھمر، چرخے کی روں روں، دھنکئے کی تِن تِن با دھمش کی تھاپ، ان گیتوں کے لیے ساز کا کام دیتی ہے۔
ایک ڈھولک مل گئی تو کیا کہنے ورنہ مٹی کے گھڑے سے بھی کام نکل جاتا ہے۔ پھر آواز کے تان سین اور تانی ہونے کی ضرورت نہیں۔ فطری اور توانا آواز میں جب پانچ سات سہاگنیں یا دس بارہ کسانوں کی ٹولی گانے پر اتر آتی ہے، سب کی پچرسی آوازیں ابھرتی ہیں تو سننے والوں کی رگوں میں لہو جوش مارنے لگتا ہے۔ آنگن میں لگے آم کے پیڑ تلے جب لڑکیاں بالیاں گانے لگتی ہیں تو سننے والی بوڑھیوں کی بیتی جوانی جاگتی ہے اور وہ بھی آواز ملانے لگتی ہیں کیونکہ ان گیتوں میں انہیں کی سادہ زندگی کی بہت سی کہانیاں سموئی ہوئی ہوتی ہیں۔

ANS 05

1

ہمارے معاشرے میں عام طورسے کسی عہدے اور منصب پر فائز ہونے کو بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے ، ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے ،مگر یہ عہدہ و منصب باعث عزت و افتخار اس وقت ہے جب صاحب منصب اپنی ذمہ داریاں بخوبی اور احسن طریقے سے ادا کرے لیکن اس کے برعکس اگر صاحب منصب کی طرف سے اس عہد ے میں خیانت اور غفلت کا مظاہرہ کیا جائے تو یہی منصب اور عہدہ انسان کیلئے وبال جان بن جاتا ہے ا ور اس مصیبت میں گرفتاری نہ صرف دنیا میں رہتی ہے بلکہ قیامت میں بھی صاحب منصب سے عہدے اور اپنے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا

قرآن کریم میں بھی اس ذمہ داری کو امانت داری سے کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے ۔

ـــ’’بیشکاللہتمہیںحکمدیتاہےکہتمامانتیںاہلامانتتکپہنچائواورجبلوگوںکےدرمیانفیصلہکروتوانصافسےکرو،،

( سورہ النساء آیت نمبر۸۵)

اس آیت کریمہ میں اللہ تبارکوتعالی نے اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے اس کے ذمہ یہ لازم ہے کہ امانت کو اس کے اہل و مستحق تک پہنچائے اور اس آیت میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ امانت کا لفظ جمع کے ساتھ آیا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امانت صرف یہی ہی نہیںـــکہکسیکاکوئیمالرکھاہواسکوہیامانتکہاجائےبلکہاسکےعلاوہانسانپرعائدبےشمارذمہداریاںخاصطورپرحکومتکےجتنےعہدےاورمناصبہیںوہسباللہکیامانتیںہیںجسکےامینوہحکاماورافسرہیںجنکےہاتھ میںمعزولی اورتعیناتی کے ا ختیارات ہیں ،چنانچہ ان کیلئے ہر گز یہ جائز نہیں کہ عہدہ کسی ایسے افراد کے سپرد کریں جو اپنی علمی یا عملی کارکردگی کے لحاظ سے اس کا اہل نہیں ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہرعہدے کے لحاظ سے اپنے دائرہ حکومت میں ایسے افراد تلاش کریں جو ان عہدوں اورمناصب کے مستحق ہیں البتہ اگر کوئی ایسا شخص میسر نہ آئے جو عہدے کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہو تو ایسی صورت میں تمام لوگوں میں امانت داری اور قابلیت کے لحاظ سے جو موجودہ لوگوں پر فائق ہو اسے ترجیح دی جائے،

          دوسری طرف سرور کونین ﷺنے بھی امانت کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے ، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں بہت کم ایساہوگا کہ رسول اللہ ﷺنے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو ’’جسمیں امانت داری نہیںاسمیں ایمان نہیں ،اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں‘‘ (شعب الایمان)

اس کے برعکس اگر اس ذمہ داری میں کوتاہی برتی جائے اور عہدہ ومنصب ان لوگوں کے سپرد کیا جائے جو اس منصب کے اہل نہیں تو یہ بھی ایک عظیم خیانت ہے اور احادیث مبارکہ میں خیانت کرنے والوں کے بار ے میں بے شمار وعیدیں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ایک حدیث میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ،

’’منافق کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جب اس کے پاس امانت ر کھی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔

(راوی ابوہریرہ ،ابن عمر رضی اللہ عنہما بخاری ومسلم)

ایک اور حدیث میں سرور دوعالم ﷺ نے کسی منصب پر غیر اہل شخص کو بٹھانے والوں کو ملعون قرار دیا ہے ۔

’’جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہوپھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض د وستی و تعلق کی بناء پر بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے ،نہ اسکا فرض مقبول ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے

اسلامی تعلیمات جو کہ رہتی انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں اگر ان تعلیمات کے بنیادی عنصر یعنی امانت کو زندگی کے ہر موڑ پر پیش نظر رکھ کر معاملات کو طے کیا جائے خصوصا انتظامی معاملات عہدوں اور مناصب کی تقسیم میں اسکو بنیادی اہمیت دی جائے تونہ صرف حکومتی نظام کو کافی حد تک بہتربنایاجاسکتاہے بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی بیشمار خرافات اور سماجی برائیوں کا سدباب کرکے مستحقین کو ان کے حقوق با آسانی پہنچائے جاسکتے ہیں اس کے بر خلاف اسلام کی ان بنیادی تعلیمات سے غفلت برتنے کے نتیجے میں معاشرے میں نت نئے مسائل اورسماجی بر ائیاں جنم لیتی ہیں اور نااہل لوگوں کے عہدوں قابض ہوجانے کے باعث بالا خررفتہ رفتہ نظام حکومت مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے، آج معاشرے میںجہاں کہیں بھی نظام حکومت کی ابتری نظرآتی ہے وہ سب ان روشن تعلیمات کو نظرانداز کردینے کانتیجہ ہے کہ علمی اور عملی قابلیت کو نظر اندازکرتے ہوئے محض تعلقات اور سفارشوں کی بنیاد عہدے اور مناصب تقسیم کئے جاتے ہیں ،سفارشی کلچر نے اداروں کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے ،جس سے ادارے ہر گزرتے دن کے ساتھ بجائے ترقی کرنے کے بجائے خساروں کی دلدل میں دھنس رہے ہیں ، اشرافیہ قابلیت اور صلاحیتوں کو ترجیح دینے ، عہدوں کو میرٹ پر تقسیم کرنے اور امانت و دیانتداری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سفارشوں اور تعلقات پر اکتفاء کئے ہوئے ہیں ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل اورقابل لو گ روزگار کے بہتر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے غلط راہوں کا تعیین کرکے ملک دشمن عناصر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ، جس سے نہ صرف وہ اپنے آپ کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتے ہیں بلکہ ملک وملت کیلئے بھی ناسور بن جاتے ہیں ، موجودہ حالات میں جہاں ہمارا ملک بدترین دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا ہے کہیں نہ کہیں اس کے پیچھے یہ عامل بھی کارفرما ہے ، ارباب اقتدار جہاں اس سنگین مسلئے کے حل کیلئے دیگر جہات سے کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ، وہیں اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے اس جہت کی طرف بھی توجہ دینا بھی انتہائی اہم اور ضروری ہے ،

2

ﺻﺎﺣﺐﺗﺼﻮﺭﺍﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﮐﻮﭼﺎﮨﯿﺌﮯﮐﮧﺑﺎﻭﺿﻮﺻﺎﻑﺳﺘﮭﺮﮮﮐﭙﮍﮮﭘﮩﻦﮐﺮﭘﺎﮎﺟﮕﮧﻣﯿﮟﺗﻨﮩﺎﺑﯿﭩﮭﮯ۔ﺍﻭﺭﺩﻝﮐﻮﺗﻤﺎﻡﻏﯿﺮﺧﯿﺎﻻﺕ،ﺩﻧﯿﻮﯼﺗﻔﮑﺮﺍﺕﻭﻣﺎﺳﻮﯼٰﺧﯿﺎﻻﺕﺳﮯﺧﺎﻟﯽﺍﻭﺭﻓﺎﺭﻍﮐﺮﺩﮮﺍﻭﺭﻇﺎﮨﺮﯼﻭﺳﻮﺍﺱِﺷﯿﻄﺎﻧﯽﻭﺧﻄﺮﺍﺕﻧﻔﺴﺎﻧﯽﮐﺎﺭﺍﺳﺘﮧﺑﻨﺪﮐﺮﻧﮯﮐﮯﻟﯿﮯﻧﯿﭽﮯﻟﮑﮭﮯﮨﻮﺋﮯﮐﻼﻣﻮﮞﮐﻮﭘﻮﺭﯼﺗﻮﺟﮧﺳﮯﭘﮍﮪﮐﺮﺍﭘﻨﮯﺍﻭﭘﺮﺩﻡﮐﺮﻟﮯ۔

ﺗﻌﻮﺫﺍﻟﺤﻤﺪﺷﺮﯾﻒﺁﯾﺖﺍﻟﮑﺮﺳﯽﺳﻮﺭﺓﺍﻟﮑﺎﻓﺮﻭﻥﺳﻮﺭﺓﺍﻻﺧﻼﺹﺗﯿﻦﺗﯿﻦﺑﺎﺭﭘﮍﮬﮯ۔

ﺍﻭﺭﺍﺱﮐﮯﺑﻌﺪﺩﺭﻭﺩﺷﺮﯾﻒ،ﮐﻠﻤﮧﺍﺳﺘﻐﻔﺎﺭﺁﯾﺖ ” ﺳﻼﻡﻗﻮﻻﻣِﻦﺭﺏﺭﺣِﯿﻢ ” ﺁﯾﺖﺷﺮﯾﻒ۔

ﻭَﺍﻟﻠﮧﺍﻟﻤﺴﺘﻌﺎﻥﻋﻠﯽﻣﺎﺗﺼِﻔﻮﻥ۔۔

ﮐﻠﻤﮧﺗﻤﺠﯿﺪ۔ﺳﺒﺤﺎﻥﺍﻟﻠﮧِﻭﺍﻟﺤﻤﺪُﻟِﻠﮧِﻭَﻟَﺂﺍِﻟﮧَﺍِﻻﺍﻟﻠﮧُﻭﺍﻟﻠﮧﺍﮐﺒﺮ۔ﻭﻻﺣﻮﻝﻭﻻﻗﻮﺓﺍِﻻﺑِﺎﻟﻠﮧِﺍﻟﻌﻠِﯽِﺍﻟﻌﻈِﯿﻢ۔ﮐﻠﻤﮧﺗﻮﺣﯿﺪ۔۔ﻵﺍِﻟﮧﺍِﻻﺍﻟﻠﮧﻭﺣﺪﮦﻻﺷﺮِﯾﮏَﻟﮧ ‘ ﻟﮧُﺍﻟﻤﻠﮏﻭﻟﮧُﺍﻟﺤﻤﺪُﯾُﺤْﯽﻭﯾﻤِﯿﺖﻭﮬﻮﻋﻠﯽﮐﻞِﺷﯽﻗﺪﯾﺮ۔۔ﺍﻭﺭ

ﮐﻠﻤﮧﻃﯿﺐ۔ﻵﺍِﻟٰﮧَﺍِﻻﺍﻟﻠﮧﻣﺤﻤﺪﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧِ۔ﮨﺮﺍﯾﮏﺗﯿﻦﺑﺎﺭﭘﮍﮪﮐﺮﺳﯿﻨﮯﭘﺮﺩﻡﮐﺮﮮﺍﻭﺭﺩﻭﻧﻮﮞﮨﺎﺗﮭﻮﮞﮐﯽﮨﺘﮭﯿﻠﯿﻮﮞﭘﺮﺩﻡﮐﺮﮐﮯﺗﻤﺎﻡﺑﺪﻥﭘﺮﮨﺎﺗﮫﭘﮭﯿﺮﻟﮯ۔ﺍﺱﮐﮯﺑﻌﺪﺁﻧﮑﮭﯿﮟﺑﻨﺪﮐﺮﮐﮯﺣﻖﺳﺒﺤﺎﻧﮧﻭﺗﻌﺎﻟﯽﮐﯽﭘﺎﮎﺫﺍﺕﮐﮯﻣﺸﺎﮨﺪﮮﺍﻭﺭﻣﺠﻠﺲﺣﻀﺮﺕﺳﺮﻭﺭِﮐﺎﺋﻨﺎﺕﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﻭﻣﺠﻠﺲﺣﻀﺮﺕﺍﻧﺒﯿﺎﻭﺍﻭﻟﯿﺎﻭﯾﺎﺩﻣﻮﺕﻭﺁﺧﺮﺕﻭﻗﺒﺮﻭﺣﺸﺮﻧﺸﺮﻭﻏﯿﺮﮦﺗﻔﮑﺮﺍﺕﺩﻝﻣﯿﮟﺟﺎﮔﺰِﯾﮞﮑﺮﮮﺍﻭﺭﺍﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﻭﺍﺳﻢﻣﺤﻤﺪﺳﺮﻭﺭِﺩﻭﻋﺎﻟﻢﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﮐﻮﺗﻔﮑﺮﮐﯽﺍﻧﮕﻠﯽﺳﮯﺍﭘﻨﮯﻣﺎﺗﮭﮯﭘﺮﺍﻭﺭﭘﮭﺮﺍﭘﻨﮯﺩﻝﭘﺮﺑﺎﺭﺑﺎﺭﻟﮑﮭﻨﮯﮐﯽﮐﻮﺷﺶﮐﺮﮮ

ﺍﻭﺭﺍﮔﺮﮐﺴﯽﮐﺎﻧﻔﺲﺳﺮﮐﺶﮨﻮﺍﻭﺭﺍﺱﮐﯽﺳﺮﮐﻮﺑﯽﻣﻄﻠﻮﺏﮨﻮﺗﻮﻧﺎﻑﮐﮯﻣﻘﺎﻡﭘﺮﺑﮭﯽﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﺗﺼﻮﺭﺳﮯﻟﮑﮭﮯ۔ﺍﭘﻨﯽﺷﮩﺎﺩﺕﮐﯽﺍﻧﮕﻠﯽﮐﻮﻗﻠﻢﺧﯿﺎﻝﮐﺮﮐﮯﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﮐﻮﻣﺎﺗﮭﮯﭘﺮﻟﮑﮭﮯ۔ﺍﺱﺳﮯﺟﺬﺏِﺟﻼﻟﯽﭘﯿﺪﺍﮨﻮﮔﺎ۔ﺍﻭﺭﺍﺳﻢِﻣﺤﻤﺪﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﺳﯿﻨﮧﭘﺮﻟﮑﮭﮯ۔ﺍﺱﺳﮯﺟﺬﺏِﺟﻤﺎﻟﯽﺣﺎﺻﻞﮐﺮﮮﺍﻭﺭﺍﻥﺩﻭﻧﻮﮞﻣﻘﺎﻣﺎﺕﭘﺮﺍِﻥﺍﺳﻤﺎﮐﻮﺧﻮﺷﺨﻂﻧﻮﺭﯼ،ﺳﺮﺥ،ﺁﻓﺘﺎﺑﯽﺍﻭﺭﺳﻔﯿﺪﺭﻭﺷﻦﻣﺎﮨﺘﺎﺑﯽﺭﻧﮓﺳﮯﻣﻮﭨﺎﻣﺮﻗﻮﻡﯾﻌﻨﯽﻟﮑﮭﺎﮨﻮﺍﺧﯿﺎﻝﮐﺮﮮ۔ﺍﻭﺭﺍﻥﭘﺮﺍﻧﮕﺸﺖﺗﻔﮑﺮﭘﮭﯿﺮﺗﺎﺟﺎﺋﮯﺍﻭﺭﺳﺎﺗﮫﮨﯽﺩﻝﺳﮯﭘﺎﺱﺍﻧﻔﺎﺱﺟﺎﺭﯼﺭﮐﮭﮯ۔ﯾﻌﻨﯽﺟﺐﺳﺎﻧﺲﺍﻧﺪﺭﮐﻮﺟﺎﺋﮯ،ﺗﻮﺳﺎﺗﮫﺩﻝﻣﯿﮟﻟﻔﻆﺍﻟﻠﮧﮐﮩﮯﺍﻭﺭﺟﺐﺳﺎﻧﺴﺲﺑﺎﮨﺮﮐﻮﻧﮑﻠﮯﺗﻮﺩﻝﻣﯿﮟﺧﯿﺎﻝﺳﮯﻟﻔﻆﮬﻮﻧﮑﻠﮯ،ﺍﻭﺭﺟﺐﺍﺳﻢﻣﺤﻤﺪﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﮐﯽﻣﺸﻖﮐﺮﮮ،ﺗﻮﺳﺎﻧﺲﺍﻧﺪﺭﺟﺎﺗﮯﻭﻗﺖﻣﺤﻤﺪﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧﮐﮩﮯﺍﻭﺭﺳﺎﻧﺲﺑﺎﮨﺮﺁﺗﮯﻭﻗﺖﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﺧﯿﺎﻝﺳﮯﺩﻝﻣﯿﮟﮐﮩﮯ۔ﺍﺱﻃﺮﺡﺑﺎﺭﺑﺎﺭﻣﺸﻖﮐﺮﻧﮯﺳﮯﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﺍﻭﺭﺍِﺳﻢﻣﺤﻤﺪﺳﺮﻭﺭِﮐﺎﺋﻨﺎﺕﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﻃﺎﻟﺐﮐﮯﺍﻧﺪﺭﻣﺘﺠﻠﯽﮨﻮﺟﺎﺋﮯﮔﺎ۔ﺟﺲﻭﻗﺖﻃﺎﻟﺐﮐﮯﺗﺼﻮﺭﻭﺗﻔﮑﺮﺍﻭﺭﻣﺮﺷﺪﮐﺎﻣﻞﮐﯽﺗﻮﺟﮧﻭﺗﺼﺮﻑﯾﻌﻨﯽﻃﺎﻟﺐﮐﯽﮐﻮﺷﺶﺍﻭﺭﻣﺮﺷﺪﮐﯽﮐﺸﺶﺟﺐﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﭘﺮﯾﮑﺠﺎﻭﻣﺘﺤﺪﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟﮔﮯ۔ﺗﻮﺍﺱﺳﮯﺟﻼﻝﮐﯽﺑﺠﻠﯽﭘﯿﺪﺍﮨﻮﮐﺮﻃﺎﻟﺐﮐﻮﺑﺎﻃﻦﻣﯿﮟﻏﺮﻕﻭﺑﮯﺧﻮﺩﮐﺮﺩﮮﮔﯽ۔ﺍﺱﻭﻗﺖﺑﺎﻃﻦﻣﯿﮟﺟﻮﻭﺍﺭﺩﺍﺕﮨﻮﮞﮕﯽﺍﺳﮯﯾﺎﺩﻧﮩﯿﮟﺭﮨﯿﮟﮔﯽ۔ﺍﻭﺭﺍﮔﺮﺍﺱﮐﻮﺟﺬﺏﺟﻤﺎﻟﯽﮐﯽﺑﺠﻠﯽﻧﮯﮐﮭﯿﻨﭻﻟﯿﺎﮨﮯﺗﻮﺍﺱﻭﻗﺖﺍﺱﮐﺎﺫﮐﺮﻧﻔﺴﯽ،ﻗﻠﺒﯽ،ﺭﻭﺣﯽ،ﺳِﺮﯼﻭﻏﯿﺮﮦﺟﺎﺭﯼﮨﻮﮐﺮﺍﺱﮐﻮﮨﻮﺵﻭﺣﻮﺍﺱﮐﮯﺳﺎﺗﮫﺑﺎﻃﻦﻣﯿﮟﻟﮯﺟﺎﺋﯿﮟﮔﮯﺍﻭﺭﻃﺎﻟﺐﻣﺠﻠﺲﺣﻀﺮﺕﻣﺤﻤﺪﻣﺼﻄﻔﯽﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﯾﺎﻣﺠﻠﺲﺍﻧﺒﯿﺎﻭﺍﻭﻟﯿﺎﺍﻟﻠﮧﮐﮯﺣﻀﻮﺭﻣﯿﮟﻣﺸﺮﻑﮨﻮﮔﺎ۔ﺍﮔﺮﻧﻘﺶﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﺑﺴﺒﺐﮨﺠﻮﻡﻭﺳﻮﺍﺱﺷﯿﻄﺎﻧﯽﻭﻇﻠﻤﺖِﻧﻔﺴﺎﻧﯽﺩﻝﭘﺮﻗﺎﺋﻢﻧﮧﮨﻮ،ﺗﻮﻃﺎﻟﺐﮐﻮﭼﺎﮨﯿﮯﮐﮧﻣﺸﻖﻭﺟﻮﺩﯾﮧﺷﺮﻭﻉﮐﺮﮮ۔ﯾﻌﻨﯽﻧﻘﺶﺍﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﮐﻮﺩﻣﺎﻍﮐﮯﭼﺎﺭﻭﮞﺧﺎﻧﻮﮞﻤﯿﮟ،ﺁﻧﮑﮭﻮﮞﻣﯿﮟ،ﺯﺑﺎﻥ،ﮨﺎﺗﮫﮐﯽﮨﺘﮭﯿﻠﯿﻮﮞﭘﺮ،ﺳﯿﻨﮯﺍﻭﺭﻧﺎﻑﮐﮯﺍِﺭﺩﮔﺮﺩﮨﺮﭘﮩﻠﻮﭘﺮﻧﻘﺶﮐﺮﮮﺗﺎﮐﮧﺷﯿﻄﺎﻥﮐﯽﻗﯿﺪﺳﮯﭼﮭﻮﭦﮐﺮﭘﺎﮎﻭﺻﺎﻑﻭﻣﺰﮐﯽﮨﻮﺟﺎﺋﮯﺍﻭﺭﺣﻀﻮﺭﺳﺮﻭﺭِﮐﺎﺋﻨﺎﺕﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﺍﻭﺭﻣﺸﺎﮨﺪﺋﮧﺣﻖﺫﺍﺕﮐﮯﻗﺎﺑﻞﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔

ﺳﺐﺳﮯﺑﮩﺘﺮﺍﻭﺭﺁﺳﺎﻥﻃﺮﯾﻘﮧﯾﮧﮨﮯﮐﮧﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕﺧﻂﻣﯿﮟﮐﺴﯽﮐﺎﺗﺐﺳﮯﻟﮑﮭﻮﺍﻟﯿﺎﺟﺎﺋﮯﺍﻭﺭﺍﺱﮐﮯﺣﺮﻭﻑﮐﻮﺩﯾﮑﮫﮐﺮﺍﺱﮐﺎﻧﻘﺶﺩﻝﻭﺩﻣﺎﻍﻣﯿﮟﺟﻤﺎﯾﺎﺟﺎﺋﮯ۔ﭼﺎﮨﯿﺌﮯﮐﮧﻃﺎﻟﺐﭘﮭﺮﺍﺱﮐﮯﺗﺼﻮﺭﻣﯿﮟﺁﻧﮑﮭﯿﮟﺑﻨﺪﮐﺮﮐﮯﺑﯿﭩﮫﺟﺎﺋﮯﺍﻭﺭﺍﭘﻨﯽﺑﺎﻃﻨﯽﺗﻮﺟﮧﺍﺱﭘﺮﻣﺮﮐﻮﺯﺭﮐﮭﮯ۔

ﻧﻘﺶﺍﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﺍﮔﺮﺟﺴﻢﮐﮯﮨﺮﺍﻧﺪﺍﻡﭘﺮﻣﺮﻗﻮﻡﮐﺮﻧﮯﻣﯿﮟﺩِﻗﺖﻣﺤﺴﻮﺱﮨﻮﺗﻮﺟﺲﻣﻘﺎﻡﭘﺮﺁﺳﺎﻧﯽﺳﮯﻣﺮﻗﻮﻡﮨﻮﺍﻭﺭﺟﻮﺍِﺳﻢﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽﮐﮯﺳﺎﺗﮫﺍﻭﺭﺁﺳﺎﻥﺍﻭﺭﺳﮩﻞﻃﺮﯾﻘﮯﺳﮯﻟﮑﮭﺎﺟﺎﺳﮑﮯ،ﭘﮩﻠﮯﺍﺳﯽﮐﯽﻣﺸﻖﮐﯽﺟﺎﺋﮯﺍﻭﺭﺁﻧﮑﮭﯿﮟﺑﻨﺪﮐﺮﮐﮯﺟﺲﺟﮕﮧﮨﻮﺳﮑﮯ،ﺻﺮﻑﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﮐﯽﺗﺤﺮﯾﺮﺍﻭﺭﺍﺱﮐﮯﻧﻘﺶﭘﺮﺍﭘﻨﯽﺗﻮﺟﮧﺍﻭﺭﻓﮑﺮﻣﺒﺬﻭﻝﺭﮐﮭﮯ۔

ﺷﻐﻞﺗﺼﻮﺭﺍِﺳﻢﺍﻟﻠﮧﺫﺍﺕﮐﮯﻟﯿﮯوﻗﺖﮐﺎﺗﻌﯿﻦﻧﮩﯿﮟﮨﮯ،ﺟﺲﻭﻗﺖﭼﺎﮨﮯﮐﺮﺳﮑﺘﺎﮨﮯ،ﻟﯿﮑﻦﺳﺐﺳﮯﺑﮩﺘﺮﻭﻗﺖﺻﺒﺢﺻﺎﺩﻕﺳﮯﻟﮯﮐﺮﻃﻠﻮﻉِﺁﻓﺘﺎﺏﯾﺎﭼﺎﺷﺖﺗﮏﮨﮯ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *